یعنی جب ان افراد کو علم ہی نہیں ہوتا وہ بیماری کے شکار ہیں تو وہ احتیاط بھی نہیں کرتے۔
یہی وجہ ہے کہ ماہرین کے لیے یہ جاننا اہمیت رکھتا تھا کہ اس راز کی وضاحت کریں اور اس کا حل تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
ہمارے پھیپھڑوں کے اندر ایسے مخصوص مدافعتی خلیات alveolar macrophages ہوتے ہیں، جو پھیپھڑوں کے صحت مند ماحول کو برقرار رکھنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔
پھیپھڑوں میں ان خلیات کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے تو یہ ممکنہ طور پر ایسے خلیات بھی ہوتے ہیں جن کا سامنا کسی حملہ آور وائرس سے ہوتا ہے۔
جب جسم کسی وائرل انفیکشن کو شناخت کرتا ہے تو مدافعتی نظام اییسے پروٹینز کو بنانا شروع کرتا ہے جو مدافعتی ردعمل میں مدد دیتا ہے اور اس سے وائرل انفیکشن سے لڑنے میں مدد ملتی ہے۔
alveolar macrophages ہی ان انٹرفیرونز پروٹین کو بنانے میں مدد دتیے ہیں جو نظام تنفس کے وائرسز جیسے انفلوائنزا سے لڑتے ہیں۔
نئے کورونا وائرس کو بھی نظام تنفس کا وائرس سمجھا جاتا ہے جو عموماً پھیپھڑوں کی بیرونی تہہ کے خلیات epithelial کو شکار کرتا ہے۔
اب ایک نئی تحقیق میں ثابت کیا گیا کہ ان متاثرہ خلیات میں انٹرفیرونز بننے کا عمل متاثر ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں مدافعتی نظام کا ردعمل محدود ہوتا ہے۔
اگرچہ epithelial کی تہہ وائرس کا ہدف ہوتی ہے مگر یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ سب سے پہلے alveolar macrophages کا ہی وائرس سے سامنا ہوتا ہوگا، اور یہ خلیات برق رفتار مدافعتی ردعمل کے لیے اہمیت رکھتے ہیں۔
اس خیال کو مدنظر رکھتے ہوئے ڈنمارک کی آراہوس یونیورسٹی اور آراہوس ہاسپٹل نے تحقیق کی کہ ان خلیات کا نئے کورونا وائرس کے خلاف ردعمل کتنا اہم ہوتا ہے۔
اس مقصد کے لیے انہوں نے ان خلیات کو پھیپھڑوں سے الگ کرکے حاصل کیا گیا اور کورونا وائرس سے مقابلہ کراتے ہوئے مدافعتی نظام کے تحرک کی جانچ پڑتال کی۔