ٹرمپ کو دوبارہ امریکا کا صدر کیوں نہیں بننا چاہیے؟
اگرچہ امریکا کے باہر مقیم افراد کا امریکی صدارتی انتخابات سے کوئی تعلق نہیں ہے لیکن پھر بھی دنیا بھر میں موجود جمہوریت پسندوں کی خواہش ہے کہ ٹرمپ کو انتخابات میں شکست ہوجائے۔ لیکن امریکی عوام ڈونلڈ ٹرمپ کو دوسری مدت کے لیے صدر منتخب کرتے ہیں یا نہیں یہ جاننے کے لیے امریکا سے باہر موجود جمہوریت پسندوں کو 3 نومبر تک انتظار کرنا پڑے گا۔
اس خواہش کی وجہ سادہ ہے۔ ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدار میں جو اقدامات اٹھائے ہیں ان سے جمہوریت کا بنیادی نظریہ مجروح ہوا ہے۔ ٹرمپ کے ان اقدامات سے دنیا بھر میں موجود آمرانہ سوچ رکھنے والوں کو فائدہ ہوا ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد تشکیل پانے والے نظام میں امریکی برتری کی بنیاد دراصل جمہوریت کے نظریے پر ہی تھی۔ اس وقت کا بیانیہ یہ تھا کہ کمیونزم کے نام پر قائم آمرانہ حکومتوں کے مقابلے میں جمہوریت کا نظریہ جمالیاتی اور اخلاقی برتری رکھتا ہے۔ امریکی سیاستدانوں نے جمہوریت کے فروغ اور اس کی حفاظت کو ناصرف عملی طور پر کرکے دکھایا بلکہ اس کو ایک معزز کام بھی سمجھا۔
مزید پڑھیے: بیمار امریکا کا معالج کون؟
ظاہر ہے کہ عملی سیاست کی کچھ مجبوریاں تھیں اور ان مجبوریوں کو سمجھا بھی گیا۔ امریکا کے سپر پاور کی حیثیت اختیار کرنے اور اسے برقرار رکھنے میں جہاں ایک طرف بڑا ہاتھ اس کے بیلسٹک میزائلوں، بی-52 بمبار طیاروں اور فوجیوں کا ہے وہیں اس کی وجہ اسے ’آزاد دنیا‘ کا قائد تسلیم کیا جانا بھی ہے۔ اس کا سبب امریکی آئین اور یہاں موجود جمہوری تحرک ہے۔ جو شخص بھی اوول آفس میں رہتا ہے وہ اس جمہوری نظام کی عظمت کی مجسم صورت ہوتا ہے۔
اور پھر رچرڈ نکسن کے علاوہ جان ایف کینیڈی سے لے کر براک اوباما تک ہر امریکی صدر عالمی سطح پر جمہوری نظریات پر بخوبی اثر انداز ہوا۔ لیکن پھر ٹرمپ برسرِ اقتدار آگئے۔
گزشتہ 4 سالوں میں دنیا نے ٹرمپ کے طرزِ عمل کو بغور دیکھا۔ ان کے طرزِ عمل سے ایسا لگا جیسے وہ دیانتدار قیادت کی فراہمی جیسی بنیادی ذمہ داری سے مستثنیٰ ہیں، جو جمہوری نظام میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کے برعکس ٹرمپ نے اپنے طرزِ عمل سے خود کو دنیا کے ان تمام مطلق العنان حکمرانوں کے لیے رول ماڈل کے طور پر پیش کیا جو ذمہ دارانہ حکمرانی کے تمام اصولوں کو پامال کرتے ہیں۔
ٹرمپ نے اس وقت نو آموز جمہوری حکمرانوں کی نظروں میں اپنی وقعت کھو دی جب انہوں نے کورونا کے باعث انتخابات ملتوی کرنے اور انتخابات میں شکست پر نتائج تسلیم نہ کرنے کا اشارہ دیا تھا۔
دنیا حیرت سے دیکھ رہی تھی کہ آخر کوئی امریکی صدر خود کو اس قسم کے طرزِ عمل کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ کیونکہ انتخابی جمہوریت کا پہلا اصول یہی ہے کہ جیتنے والا اور ہارنے والا دونوں نتیجے کو تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن یہاں تو ایک ایسا صدر تھا جو مضبوط جمہوریت کے تمام قاعدوں اور اطوار کو حقیر جانتا ہے۔
جمہوریت آمرانہ نظام پر برتری کا دعویٰ اسی لیے کرتی ہے کہ ایک جمہوری رہنما معاشرے کے مہذب جذبات اور رجحانات کو متحرک کرتا ہے۔ ایک دانا رہنما جب لوگوں کو کسی عظیم مقصد کی طرف بلاتا ہے تو دراصل وہ افراد کو ان کی اہمیت کا احساس دلا رہا ہوتا ہے۔ ٹرمپ نے نہ ہی کبھی اچھا لیڈر بننے کی کوشش کی اور نہ کبھی اس بات کی خواہش کی۔
ایک وقت تھا کہ جب امریکی صدور خود کو تیسری دنیا کے ممالک کے طرزِ عمل پر فیصلے کرنے کا اہل سمجھتے تھے۔ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ آج بھی ممالک کو انسانی حقوق اور مذہبی رواداری کی بنیاد پر سرٹیفیکیٹ جاری کرتا ہے۔ لیکن صدر ٹرمپ کے ہوتے ہوئے یہ عمل کھوکھلا معلوم ہوتا ہے۔ وہ خود قیادت کے ایک ایسے ماڈل پر عمل کر رہے ہیں جس کی بنیاد گھناؤنے تعصبات اور نفرت انگیز جذبات پر ہے۔
مزید پڑھیے: امریکی کس کو ووٹ دیں؟ ٹیکس چھوٹ دینے والے نسل پرست کو یا ٹیکس لگانے والے لبرل کو؟
ٹرمپ خود تو کوئی شعلہ بیاں مقرر نہیں ہیں لیکن انہوں نے دنیا کے عوامی رہنماؤں کو یہ سکھا دیا ہے کہ سیاسی طاقت کے حصول کے لیے کس طرح سرکشی اور عیاری کی حکمتِ عملی ترتیب دی جاسکتی ہے۔ ایک جمہوری رہنما کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ معاشرے میں موجود تقسیم کو ختم کرکے قوم کو متحدکرے۔ لیکن صدر ٹرمپ تو امریکیوں میں قبائلی جھگڑوں کو ہوا دیتے رہے ہیں۔ دیگر سیاسی نظام کی طرح امریکی جمہوریت کے بھی اپنے نقائص ہیں لیکن صدر ٹرمپ نے تو اسے اس کی رہی سہی اخلاقی اقدار اور عزت سے بھی محروم کردیا ہے۔
کورونا وبا کے دور میں ٹرمپ کے رویے نے غیر ذمہ داری کی نئی مثال قائم کردی ہے۔ ایک بھاری بھرکم شخص جو اپنی عمر کی 7ویں دہائی میں سپرمین ہونے کی اداکاری کررہا ہے۔ ٹرمپ نے گزشتہ کچھ دنوں میں ان تمام حکمرانوں کو قبولیت دے دی ہے جو عوامی زندگی کی سنجیدہ حقیقتوں کو غیر اہم بنا سکتے ہیں۔
اسی لیے کسی کو اس بات میں کوئی حیرت نہیں ہے کہ آمرانہ ذہنیت رکھنے والے حکمران ٹرمپ کو پسند کرتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹرمپ بخوبی جانتے ہیں کہ کس طرح دلیل سے بات کرنے والے ہوش مند شہریوں کو غیر معقول افراد کے ایک ہجوم میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ ٹرمپ نے امریکیوں کی بڑی تعداد کو امریکا کے مقامی یا غیر مقامی، حقیقی یا خیالی دشمنوں سے نفرت کرنے پر آمادہ کرلیا ہے۔
اس کے برخلاف دنیا بھر میں جمہوری احتجاج اور اختلافِ رائے کو ان طاقتور حکمرانوں کی جانب سے دبایا جا رہا ہے جو خود کو قوم کا نجات دہندہ بنا کر پیش کرتے ہیں۔ گزشتہ 4 سالوں میں اختلاف کرنے والی آوازوں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ انہوں نے ٹرمپ سے کوئی امید نہیں رکھنی۔ دنیا بھر میں موجود ان آوازوں کے لیے کوئی وجہ باقی نہیں رہی کہ جس کے سبب وہ یہ امید رکھیں کہ ٹرمپ مزید 4 سال امریکا کے صدر رہیں۔
ان سب سے بڑھ کر ٹرمپ نے عوامی زندگی میں راست بازی اور اخلاقی اصولوں کی بے قدری کی ہے۔ اخلاقی بدحالی کی بنا پر ریاست بھی طاقت کا اخلاقی جواز کھو دیتی ہے۔ ٹرمپ سیاسی قیادت کو اس کی اعلیٰ منصبی سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔ وائٹ ہاوس میں ٹرمپ کی واپسی دنیا بھر کے آمر حکمرانوں کو مزید تحرک بخشے گی۔ بس یہی ایک وجہ ٹرمپ کی اوول آفس سے بے دخلی کے لیے کافی ہے۔
یہ مضمون 25 اکتوبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔
لکھاری دہلی سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی ہیں اور دی ٹریبون میں بطور ایڈیٹر ان چیف کام کرچکے ہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔