اسلام آباد میں واقع مندر، دھرم شالا ہندو کمیونٹی کیلئے کھول دیا جائے، اسلامی نظریاتی کونسل
اسلامی نظریاتی کونسل نے اسلام آباد میں ہندو برادری کے قدیم مندر اور دھرم شالا کو کھولنے کی اجازت دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ آئینی طور پر مذہبی گروہ کا حق ہے کہ وہ اپنے فوت شدگان کی آخری رسومات ادا کرے۔
چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل ڈاکٹر قبلہ ایاز کی زیرصدارت کونسل کا 222 واں اجلاس ہوا۔
اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘وزارت مذہبی امور نے خط میں رائے طلب کی تھی جس میں لکھا تھا کہ اسلام آباد میں ہندو کمیونٹی کو سیکٹر ایچ نائن/2 میں 4 کینال زمین الاٹ کی گئی ہے جس پر وہ اپنے فوت شدگان کو نذر آتش کرنے کے لیے شمشان گھاٹ، شادی بیاہ اور تہواروں کو منانے کے لیے کمیونٹی سینٹر اور پوجا پاٹ کے لیے ایک مرکز قائم کرنا چاہتے ہیں’۔
مزید پڑھیں: سی ڈی اے نے اسلام آباد میں مندر کے مقام پر چار دیواری کی تعمیر روک دی
بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘اسلامی نظریاتی کونسل نے شرعی تقاضوں، 1950 کے نہرو-لیاقت معاہدے اور 1973 کے آئین کو سامنے رکھ کر ایک رائے قائم کی جو وزارت مذہبی امور کو ارسال کی جارہی ہے’۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا کہ ہندو کمیونٹی کی درخواستوں پر تفصیلی غور و خوض اور شرعی دلائل ملاحظہ کرنے کے حسب ذیل نکات پر اتفاق کیا گیا ہے۔
1-اسلام آباد میں ہندو کمیونٹی کی حالیہ آبادی کے تناسب کے پیش نظر سید پور میں واقع قدیم مندر اور اسی کے ساتھ ملحق دھرم شالہ کو ہندوؤں کے لیے کھول دیا جائے اور ہندو برادری کی رسائی ممکن بنائی جائے تاکہ ہندو کمیونٹی اپنے عقیدے کے مطابق مذہبی عبادات بجا لا سکیں۔
2- آئینی طور پر ہر مذہبی گروہ کا حق ہے کہ وہ اپنے مذہب کے مطابق فوت شدگان کی آخری رسومات ادا کرے، اس حق کے پیش نظر ہندو کمیونٹی کو اسلام آباد میں شمشان گھاٹ کے لیے موزوں جگہ پر انتظام کرنے کی اجازت ہے جہاں وہ اپنی مذہبی ہدایات کے مطابق فوت شدگان کی آخری رسومات ادا کر سکیں۔
3- شادی بیاہ اور مذہبی تہواروں کے لیے ان کو کمیونٹی سینٹر تعمیر کرنے کی اجازت ہے، یہ آئینی حق ہے اور اس میں شرعی طور پر کوئی قباحت نہیں ہے۔
اسلامی نظریاتی کونسل نے اپنے اجلاس میں مندر کی تعمیر کے لیے حکومت کی جانب سےفنڈنگ کے فیصلے پر بھی تجویز دی اور کہا کہ پاکستان میں نجی عبادت گاہوں کے لیے سرکاری فنڈ کے اجرا کی کوئی مثال نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قانون پر عملدرآمد تک مندر کی تعمیر نہیں ہوسکتی، اسلام آباد ہائیکورٹ
فیصلے میں کہا گیا کہ کونسل حکومت کے اس تجویز کی حمایت نہیں کرسکتی جس میں مندر کے لیے فنڈ جاری کرنے کی بات کی گئی ہے۔
اپنی تجویز میں کونسل نے کہا کہ مندر کی تعمیر میں حال فنڈز کے مسائل کو دور کرنے کے لیے متبادل طریقہ اپنایا جا سکتا ہے۔
کونسل نے کہا کہ پہلا ممکنہ حل یہ ہے کہ وقف املاک بورڈ ایکٹ میں ترامیم کی جائیں تاکہ مذہبی سرگرمیوں کی ضرورت کے لیے مالی تعاون کیا جائے۔
حکومت کو فنڈنگ کے لیے دوسری ممکنہ تجویز یہ دی گئی کہ غیرمسلم برادریوں کے لیے فنڈ کا ایک بلاک تشکیل دیا جائے کیونکہ اپنے شہریوں کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری ریاست کی ہوتی ہے اور اس میں ہندو بھی شامل ہیں۔
کونسل نے کہا کہ حکومت الگ فنڈ مختص کرے اور اس کو غیر مسلم برادریوں میں تقسیم کرے اور متعلہ اقلیت کو اس فنڈ کے استعمال سے متعلق کوئی شرعی قدغن نہیں ہے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رکن قومی اسمبلی لعل چند ملہی نے اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اس اقدام سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان میں ریاست اقلیتوں کے حقوق کی حفاظت کرتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلے کے بعد کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کو سیکٹر ایج نائن میں دیوار کھڑی کرنے کے لیے اسلام آباد کی ہندو پنچایت کے لیے ایک این او سی جاری کرنی چاہیے’۔
واضح رہے کہ اسلام آباد کے سیکٹر ایچ -9 / 2 میں ہندو مندر کی تعمیر پر تنازع رواں برس مئی میں اس وقت شروع ہوا تھا جبکہ متعدد مذہبی جماعتوں اور گروپس کی جانب سے منصوبے پر اعتراض اٹھاتے ہوئے کہا گیا تھا کہ اسلامی ریاست میں ٹیکس دہندگان کی رقم سے مندر کی تعمیر اسلام کے خلاف ہے۔
بعد ازاں جولائی میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مندر کی تعمیر کے خلاف 3 ایک جیسی درخواستوں کو نمٹاتے ہوئے کہا تھا کہ عبادت کی جگہ کی تعمیر کے لیے ریگولیٹر جیسے کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) کی منظوری ضروری ہے، ساتھ ہی عدالت نے مندر کے لیے پلاٹ کی الاٹمنٹ پر اعتراض بھی مسترد کردیا تھا۔
یہ معاملہ قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بھی زیر بحث آیا تھا، جہاں وزیر مذہبی امور پیر نورالحق قادری نے ایوان زیریں کو بتایا تھا کہ مخصوص مذہبی اسکالرز کی جانب سے اعتراضات کے بعد مندر کی سائٹ پر تعمیراتی کام روک دیا گیا ہے اور معاملے پر رائے حاصل کرنے کے لیے اسے اسلامی نظریاتی کونسل کو بھیج دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ مسئلہ مندر کی تعمیر کا نہیں تھا بلکہ سوال یہ اٹھایا گیا تھا کہ آیا حکومت قومی خزانے سے رقم خرچ کرسکتی ہے یا نہیں۔
مندر کی تعمیر کا معاملہ
یاد رہے کہ گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے وفاقی دارالحکومت میں پہلے مندر کی تعمیر کے لیے 10 کروڑ روپے کی گرانٹ کی منظوری دی تھی، یہ منظوری وزیر برائے مذہبی امور پیر نور الحق قادری کی وزیراعظم سے ملاقات میں گرانٹ کے لیے کی گئی درخواست کے بعد سامنے آئی تھی۔
اس سے قبل 23 جون کو ایچ 9 ایریا میں دارالحکومت کے پہلے مندر کی تعمیر شروع کرنے کے لیے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب منعقد ہوئی تھی۔
پارلیمانی سیکریٹری برائے انسانی حقوق لال چند ملہی کی جانب سے مندر کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: سی ڈی اے نے اسلام آباد میں مندر کے مقام پر چار دیواری کی تعمیر روک دی
خیال رہے کہ اسلام آباد ہندو پنچایت نے مذکورہ مندر کا نام شری کرشنا مندر رکھا ہے۔
یہ بات مدنظر رہے کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کے حکم پر 2017 میں سی ڈی اے کی جانب سے اسلام آباد کے ایچ 9/2 میں 20 ہزار اسکوائر فٹ کا پلاٹ ہندو پنچایت کو دیا گیا تھا۔
تاہم سائٹ میپ، سی ڈی اے اور دیگر متعلقہ اتھارٹیز سے دستاویزات کی منظوری سمیت دیگر رسمی کارروائیوں کے پورے ہونے میں تاخیر کی وجہ سے تعمیرات کام شروع نہیں ہوسکا تھا۔
خیال رہے کہ سیاسی جماعت مسلم لیگ (ق) سمیت مذہبی جماعتوں جمعیت علمائے اسلام (ف)، مرکزی جمعیت اہل حدیث اور اسلام آباد میں لال مسجد اور دیگر مدارس سے وابستہ مذہبی رہنماؤں سمیت چند عام شہریوں کی جانب سے اس مندر کی تعمیر کی مخالفت کی جارہی ہے۔
اس حوالے سے گزشتہ ماہ کے آخر میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک شہری چوہدری تنویر نے درخواست بھی دائر کی تھی جس پر عدالت نے سی ڈی اے سے جواب طلب کرلیا۔
درخواست گزار وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 9 میں مندر کی تعمیر کے لیے دی گئی زمین واپس لی جائے، مزید یہ کہ مندر کی تعمیر کے لیے تعمیراتی فنڈز بھی واپس لیے جائیں۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ سید پور گاؤں میں پہلے سے مندر موجود ہے، حکومت اس کی تزئین و آرائش کرسکتی تھی۔
اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 9 میں مندر کو دی گئی زمین دارالحکومت کے ماسٹر پلان کی خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ اسلام آباد کے ماسٹر پلان پر عمل درآمد کرایا جائے جبکہ مندر کی تعمیر پر حکم امتناع جاری کیا جائے، جس پر عدالت نے مندر کی تعمیر کو فوری روکنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے حکم امتناع کی درخواست پر نوٹس جاری کردیے۔