دنیا

بنگلہ دیش: گستاخانہ خاکوں، فرانسیسی صدر کے خلاف ریلی، مسلم دنیا میں بھی شدید ردعمل

شام میں فرانسیسی رہنما کی تصاویر،طرابلس میں فرانس کا جھنڈا نذرآتش،خلیجی ممالک کی سپرمارکیٹس سے فرانسیسی مصنوعات ہٹالی گئیں، رپورٹ

ڈھاکا: فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت پر فرانسیسی صدر ایمانیوئل میکرون کی جانب سے دفاع کرنے کے بعد مسلم ملک بنگلہ دیش میں ہزاروں کی تعداد میں مظاہرین نے فرانس مخالف ریلی نکالی۔

ڈان اخبار میں خبررساں ادارے اے ایف پی کی شائع رپورٹ میں بتایا گیا کہ گستاخانہ خاکے دکھانے والے فرانسیسی استاد کے قتل کے بعد ایمانیوئل میکرون کی جانب سے مذہب کا مذاق اڑانے کے حق کا دفاع کرنے کے بعد سے مسلم دنیا میں شدید ردعمل دیکھنے میں آیا ہے۔

شام میں لوگوں نے فرانسیسی رہنما کی تصاویر کو جلا دیا جبکہ لیبیا کے دارالحکومت طرابلس میں ترنگا کے جھنڈوں کو نذرآتش کیا گیا، یہی نہیں بلکہ قطر، کویت اور دیگر خلیجی ریاستوں میں سپرمارکیٹ سے فرانسیسی مصنوعات کو ہٹا دیا گیا۔

مزید پڑھیں: فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ: یورپی یونین کی ترکی کو سنگین نتائج کی دھمکی

ادھر ترک صدر رجب طیب اردوان نے یورپ میں مسلمانوں کے ساتھ برتاؤ کو جنگ عظیم دوم سے قبل یہودیوں کے ساتھ ہونے والے سلوک سے تشبیہ دی، ساتھ ہی انہوں نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا، جس کے بارے میں پیرس کا کہنا تھا کہ اب تک اس کا بہت معمولی اثر ہوا ہے۔

دوسری جانب ڈھاکا میں مارچ کے دوران مظاہرین نے میکرون کا پتلا نذرآتش کیا جبکہ پولیس کے مطابق اس ریلی میں 40 ہزار لوگوں نے حصہ لیا۔

سیکڑوں مسلح افسران نے مظاہرین کو روکنے کے لیے خاردار تاروں کا استعمال کیا، تاہم یہ لوگ فرانسیسی سفارتخانے کے قریب جانے سے قبل ہی پرامن طور پر منتشر ہوگئے۔

واضح رہے کہ یہ ریلی بنگلہ دیش کی بڑی مذہبی جماعتوں میں سے ایک اسلامی اندولن بنگلہ دیش (آئی ای بی) کی جانب سے نکالی گئی تھی جو ملک کی سب سے بڑی مسجد سے شروع ہوئی تھی۔

یہ بات مدنظر رہے کہ بنگلہ دیش میں تقریباً 90 فیصد مسلم آبادی ہے۔

ریلی میں مظاہرین ’فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ‘ کا نعرہ بلند کرتے رہے۔

اس موقع پر ایک اسلامی اندولن کے ایک سینئر رکن عطاالرحمٰن کا نے بیت المکرم مسجد پر ریلی کے شرکا سے خطاب میں کہا کہ ’میکرون ان چند رہنماؤں میں سے ایک ہے جو شیطان کی پوجا کرتے ہیں‘۔

انہوں نے بنگلہ دیشی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ فرانسیسی سفیر کو ’باہر نکال‘ دیں۔

مزید یہ کہ ایک اور لیڈر حسن جمال کا کہنا تھا کہ اگر سفیر کو باہر نکالنے کا حکم نہیں دیا جاتا تو ’اس عمارت کی ہر اینٹ کو توڑ دیں‘ گے۔

ریلی سے ایک نوجوان رہنما نثار الدین کا کہنا تھا کہ ’فرانس مسلمانوں کا دشمن ہے اور جو ان کی نمائندگی کرتے ہیں وہ بھی ہمارے دشمن ہیں‘۔

خیال رہے کہ جیسے ہی فرانسیسی صدر کے خلاف ردعمل شدت اختیار کیا ویسے ہی یورپی یونینز کے ممالک جرمنی، اٹلی، ہالینڈ اور یونان کے رہنماؤں نے میکرون کے پیچھے کھڑے ہوگئے۔

یورپی یونین نے خبردار کیا کہ رجب طیب اردوان کا بائیکاٹ کا مطالبہ اس بلاک میں شامل ہونے کے لیے ترکی کی جانب سے پہلے سے کی جانے والی جدوجہد کے لیے دھچکا ہوگا۔

تاہم مسلم ممالک میں پایا جانے والا غصہ کم ہونے کا کوئی اشارہ نظر نہیں آرہا اور تہران نے بھی ایک سینئر فرانسیسی سفیر کو طلب کیا۔

اس کے علاوہ سعودی وزارت خارجہ نے ٹوئٹر پر جاری پیغام میں گستاخانہ خاکوں کی مذمت کی۔

وہیں ملائیشیا کے اپوزیشن لیڈر انور ابراہیم نے اسلام سے متعلق ایمانیوئل میکرون کے بیان کو ’جارحانہ‘ اور ’غیرذمہ دارانہ‘ قرار دیا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ’آزادی کے ساتھ ساتھ ذمہ داری‘ بھی ہوتی ہے۔

علاوہ ازیں مراکش میں بھی ایمانیوئل میکرون پر شدید تنقید دیکھنے میں آئی جبکہ فلسطینی اسلام پسند گروپ حماس، افغانستان میں طالبان اور لبنان کی حزب اللہ تحریک نے بھی فرانس کے خلاف بات کی۔

مزید برآن چیچنیا کے طاقت ور لیڈر رمضان کادیرو نے میکرون پر مسلمانوں کو مشتعل کرنے کا الزام لگایا اور فرانسیسی رہنما کا موازنہ ’دہشت گرد‘ سے کیا۔


یہ خبر 28 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

فرانس میں گستاخانہ خاکے، ہر قسم کی دہشت گردی قابل مذمت ہے، سعودی عرب

بلوچستان: ضلع قلات میں 8 سالہ بچہ ریپ کے بعد قتل

فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ: یورپی یونین کی ترکی کو سنگین نتائج کی دھمکی