پاکستان

مولانا فضل الرحمٰن کی فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی اپیل، پورے ہفتے احتجاج کا اعلان

جس عمل سے کسی کی بھی دل آزاری ہو اسے آزادی اظہار رائے نہیں، جرم کہا جاتا ہے، سربراہ جے یو آئی (ایف)

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر فرانسیسی مصنوعات کا استعمال ترک کرنے، تجارتی معاہدے ختم کرنے کی اپیل کی اور پورا ایک ہفتہ یومیہ احتجاج کرنے کا اعلان کیا۔

سکھر میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے اپیل کی کہ عوام فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کریں اور تاجر برادری اور حکومتی سطح پر فرانس سے کیے گئے معاہدوں کو ختم کیا جائے۔

خیال رہے کہ فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے بعد انہیں عمارتوں پر آویزاں بھی کیا گیا تھا اور فرانسیسی صدر نے کہا تھا کہ وہ خاکے بنانا نہیں چھوڑیں گے جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں میں ٖشدید غم و غصے کے لہر دوڑ گئی اور مشرق وسطیٰ سے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کی مہم کا آغاز ہوا، اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی گستاخانہ خاکوں کے ردِ عمل میں مختلف ہیش ٹیگز ٹرینڈ کررہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: ’گستاخانہ خاکوں' کا معاملہ: مسلم ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ فرانس کے صدر کی ہدایات پر گستاخانہ خاکوں کو سرکاری عمارت پر آویزاں کیا جاتا ہے اور اسے وہ آزادی اظہار رائے سمجھتے ہیں، لیکن جس عمل سے کسی کی بھی دل آزاری ہو اسے آزادی اظہار رائے نہیں جرم کہا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر یورپی عدالتوں کے فیصلے اور پارلیمنٹس کی آرا موجود ہیں، اس کے باوجود یورپی پارلیمان کا ایک رکن اس قسم کی حرکت کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں فرانس کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ جب افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی اس زمانے میں بانیان میں بدھا کے بت کو توڑنے کی کوشش کی گئی اور گولے برسائے گئے، اس کے ایک یا 2 روز بعد میری فرانس کے سفیر سے ملاقات طے تھی جو انہوں نے احتجاجاً منسوخ کردی تھی کہ آپ طالبان کی حمایت کرتے ہیں اور انہوں نے ہمارے جذبات کو مجروح کیا۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر بانیان میں بدھا کے مجمسموں پر تمہاری دل آزاری ہوتی ہے اور اس پر ردِ عمل دیتے ہو تو آپ کو دنیا کی ایک چوتھائی سے آبادی سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات کا احترام کیوں نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایک فرد جرم کرتا ہے تو اس کو ریاست کنٹرول کرتی ہیں لیکن اگر حکمران خود ایسا اقدام کرے تو وہ دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتا ہے؟

مزید پڑھیں: گستاخانہ خاکوں کے معاملے پر پاکستان کا احتجاج، فرانسیسی سفیر دفترخارجہ طلب

انہوں نے اپیل کے کہ فرانس کے پائپ لائن میں موجود معاہدوں کو بھی ختم کیا جائے اور آئندہ ان کے ساتھ کوئی تجارتی روابط نہ رکھے جائیں تا کہ انہیں معلوم ہو کہ ہم نبی کریم ﷺ یا کسی بھی نبیِ برحق کی توہین برداشت نہیں کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ یہ عجیب یورپ ہے کہ اپنے آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیروکار سمجھتے ہیں لیکن اگر ان کی بھی توہین ہوتی ہے تو مسلمان آواز اٹھاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ مذہب کے حوالے سے بے حس ہوچکے ہیں اور اپنی بے حسی کو برداشت کا نام دیتے ہیں اور احتجاج کرنے والے مسلمان کو عدم برداشت سے تعبیر کرتے ہیں یہ سوچ اور یہ فلسفہ ہمیں قبول نہیں ہے اور ہم ناموس رسالت کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے اعلان کیا کہ آئندہ جمعے سے اگلے جمعے تک پورا ہفتہ فرانس میں گستاخانہ معاملات پر احتجاج کرتے ہوئے منایا جائے گا اور ملک کے ہر حصے میں روزانہ عوام سڑکوں پر آ کر اپنا احتجاج ریکارڈ کریں۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ فرانسیسی ہفت روزہ میگزین چارلی ہیبڈو نے 2006 میں ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کی تھی، جس پر دنیا بھر میں مظاہرے کیے گئے تھے تاہم اس کے باوجود 2011 میں مذکورہ میگزین نے پھر ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کی۔

اسی میگزین نے دنیا بھر میں ہونے والے احتجاج کے باوجود وقتا فوقتاً ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت جاری رکھی، جس پر 7 جنوری 2015 کو اس کے دفتر پر دو بھائیوں نے مسلح حملہ کیا تھا جس میں جریدے کا ایڈیٹر، 5 کارٹونسٹ سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

مذکورہ واقعے کے بعد میگزین نے ’گستاخانہ خاکوں‘ کی اشاعت کا سلسلہ روک دیا تھا، تاہم گزشتہ سال ایک بار پھر مذکورہ میگزین میں ’توہین آمیز خاکوں‘ کی اشاعت ہونے لگی تھی، جس پر دنیا بھر میں اسلامی ممالک کی حکومتوں نے احتجاج بھی ریکارڈ کروایا۔

رواں برس ستمبر کے آغاز میں چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔

بعدازاں اکتوبر کے وسط میں فرانس کے ایک اسکول میں استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔

اس واقعے کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک کیا گیا تھا۔

مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو 'ہیرو' اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو 'مجسم' بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا تھا۔

مزید پڑھیں: ’گستاخانہ خاکوں' کا معاملہ: عرب سمیت دیگر مسلم ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ

پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی تھی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔

مذکورہ استاد کی یاد میں منعقدہ تقریب میں فرانس کے صدر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ’’ہم خاکے بنانا نہیں چھوڑیں گے‘‘۔

چنانچہ فرانسیسی صدر کے متنازع بیان کے بعد ہی عرب ممالک سمیت دیگر اسلامی ممالک میں فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ سمیت فرانسیسی حکومت کے خلاف مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔

یہی نہیں بلکہ ترک صدر رجب طیب اردوان نے فرانسیسی صدر کو 2 مرتبہ ’دماغی معائنہ‘ کرانے کی تجویز دی تھی، جس کے بعد فرانس نے ترکی سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا تھا۔

مذکورہ صورتحال پر ردِ عمل دیتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کی حوصلہ افزائی کر کے اسلام اور ہمارے نبی ﷺ کو ہدف بنا کر مسلمانوں، بشمول اپنے شہریوں کو جان بوجھ کر مشتعل کرنے کی راہ اختیار کی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اسلام پر اپنے بلا سوچے سمجھے حملے سے صدر ایمانوئیل میکرون یورپ اور دنیا بھر کے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات پر حملہ آور ہوئے ہیں اور انہیں ٹھیس پہنچانے کا سبب بنے۔

علاوہ ازیں فرانس کے سفیر کو دفتر خارجہ طلب کر کے شدید احتجاج ریکارڈ کروایا گیا اور پارلیمان کے دونوں ایوان میں فرانس کے صدر کے اسلاموفوبیا سے متعلق بیان پر مذمتی قرار دادیں بھی منظور کی گئیں۔

دوسری جانب ایران نے فرانس میں گستاخانہ خاکوں کی اشاعت کے معاملے پر کہا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون انتہا پسندی کو ہوا دے رہے ہیں۔

علاوہ ازیں کویت سمیت متعدد عرب ممالک کی کاروباری تنظیموں نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا اور یورپی ملک کی ہر طرح کی مصنوعات کو دکانوں سے ہٹایا جا رہا تھا جس پر فرانس کی حکومت نے عرب ممالک سے اپنی مصنوعات کے بائیکاٹ کو ختم کرنے کی اپیل بھی کی۔