نقطہ نظر

غندوس کی نیلی جھیل: جسے دیکھ کر لگا جیسے وہ صدیوں سے میری منتظر تھی

خالق کی صناعی مسحور کن تھی۔ پہاڑوں کے بیچ یہ وسیع و عریض جھیلیں انسان کو قدرت کے رازوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں۔

غندوس کی نیلی جھیل: جسے دیکھ کر لگا جیسے وہ صدیوں سے میری منتظر تھی

نصر بھٹی

جھیل کی طرف بڑھتے ہوئے رضا بھائی حیرت سے میری طرف متوجہ ہوئے اور پوچھا کہ آپ اس جھیل تک کیسے پہنچ گئے جبکہ اس مرتبہ تو آپ طولتی کی جھیل کا قصد کر بیٹھے تھے؟

یہ ایک سوال نہیں بلکہ گزشتہ 20 دنوں کی آپ بیتی اور سخت کرب سے گزرنے والے دنوں کی یادیں تھیں۔ ایسی یادیں کہ جن کا تذکرہ بھی میں نہیں کرنا چاہتا تھا، لیکن رضا بھائی اور ماسٹر غلام محمد کی مہمان نوازی اتنی ہی عمدہ تھی جتنی غندوس کی خوبصورت وادی اور اس میں سنہری سرخی مائل ہلمان خوبانی کے لہلاتے ہوئے باغات۔

لہٰذا طوعاً وکرہاً یہ بتانا پڑا کہ اسکردو میں 2 ماہ کے قیام کے دوران جہاں میں سیر و تفریح سے لطف اندوز ہوا وہیں گزشتہ 25 دن خاکسار کورونا کا مشتبہ مریض بھی رہا اور ساتھ ہی سی ایم ایچ میں والد محترم کو زندگی اور موت کی کشمکش میں دیکھتا رہا۔

طولتی کی جھیل کافی بلندی پر واقع ہے، اب چونکہ مجھے کورونا کے ساتھ نمونیہ کی شکایت بھی تھی اس لیے میرے مقامی میزبان دوست جو آرمی ایوی ایشن میں ہیں، انہوں نے یہ مشورہ دیا کہ اس سال آپ اپنی خواہش کو دبا دیں اور اگلے سال دوبارہ آجائیں۔ ان کی نافرمانی کا مطلب یہ تھا کہ مزید جھیلیں جن کی وہ فضا سے کھوج لگاتے رہتے ہیں ان کو کھو دینا۔ لیکن ساتھ ہی موصوف نے غوراشی جھیل کا تعارف کروا دیا اور یوں میں غندوس آ پہنچا۔

کچھ دیر سستانے اور دھوپ کی تمازت سے لطف اندوز ہونے کی وجہ سے جسم میں توانائی بحال ہوئی تو دوبارہ جھیل کی راہ پر گامزن ہو لیے۔ لیکن اس راستے پر چلنے سے قبل آپ کو میرے ساتھ اسکردو سے غندوس کا سفر کرنا ہوگا تاکہ آپ بھی ان گمنام راہوں کے مسافر بن کر ان دُور دراز جھیلوں تک باآسانی رسائی حاصل کرسکیں۔

اسکردو سے 40 منٹ کی مسافت پر ’گول‘ نامی مشہور گاؤں آتا ہے۔ یہاں سے کچھ آگے ایک راستہ خپلو کی خوبصورت وادی کی طرف جبکہ دوسرا راستہ ضلع کھرمنگ کی آبشاروں اور قراقرم کے برف پوش دیو قامت پہاڑوں کی طرف جاتا ہے۔ اس راستے کو کارگل روڈ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ عام طور پر سیاح یہاں سے 2 قابلِ دید آبشاروں کی راہ لیتے ہیں۔ منٹھوکھا اور خموش آبشاریں اس وادی کا جھومر ہیں، جو دریائے سندھ کے بازو میں بلندی سے گرتی ہوئیں راہ گیروں اور مسافروں کو اپنی پھوار سے ترو تازہ کرتی ہوئی دریا برد ہوجاتی ہیں۔

کھرمنگ کا لفظی مطلب ’قلعوں کی سرزمین‘ ہے۔ قدیم ادوار میں یہاں پر راجے برسرِ اقتدار رہے اور اس علاقہ میں حفاظتی نقطہ نظر سے زیادہ سے زیادہ قلعے بنوائے گئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کھرمنگ کا قلعہ دریا کے کنارے آج بھی کافی بہتر حالت میں موجود ہے۔ یہ ذکر کرنا بھی مناسب ہوگا کہ اس قدیم قلعہ کے ساتھ ہی ایک مسجد بھی موجود ہے۔ مقامی افراد کے بقول اس میں کسی ایک معصومین کا موئے مبارک صندوقچے کے اندر رکھا گیا ہے۔ یہ موئے مبارک ایک راجہ مغل دور میں ہندوستان سے لائے تھے۔ راستے میں مہدی آباد، غاسنگ (منٹھوکھا آبشار)، مادھو پور، گوہری، کمنگو، طولتی، میوردو اور دیگر گاؤں آتے ہیں۔ خشک پہاڑوں کے بیچ ان علاقوں کے گرد سرسبزہ آنکھوں کو خیرہ کردیتا ہے۔

دریائے سندھ کہیں پُرسکون اور کہیں پوری آب و تاب کے ساتھ بہتا نظر آتا ہے۔ دریا ان آبادیوں کے بیچ بہتے ندی نالوں کو اپنے اندر سمو لیتا ہے۔ اس سال قدرے ٹھنڈے موسم کی وجہ سے دریائے سندھ میں پانی کی مقدار کچھ کم تھی، ورنہ تو کان پڑی آواز بھی سنائی نہیں دیتی۔

خموش آبشار سے 30 منٹ قبل غندوس کا گاؤں سڑک پار نظر آجاتا ہے۔ پیدل دریا عبور کرنے کے لیے لکڑی کا چھوٹا اور جھولتا ہوا پل موجود ہے جبکہ گاڑی گزارنے کے لیے بڑا پل تعمیر کیا گیا ہے۔ بڑے پل کے ساتھ غندوس خاص اور چھوٹے پل کے پاس گمبہ شغرن کا علاقہ ہے۔

دُور سے بظاہر یوں لگتا ہے جیسے وادی بہت ہی چھوٹی ہے مگر جیسے ہی غندوس کی حدود میں داخل ہونے کے بعد گاؤں کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک پیدل کم از کم 40 منٹ سے زائد کا وقت لگ جاتا ہے۔ ایک بات جو اس علاقے کو دوسرے علاقوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہاں جگہ جگہ پر پانی کے صاف چشمے اور آبشاروں کی موجودگی ہے جن کا منبع غوراشی جھیل ہے۔

صاف ندی نالوں کی معیت میں راستے پر چڑھائی چڑھنا ہرگز آسان نہیں تھا مگر شہد سی میٹھی ہلمان اور مارگولام خوبانیاں توڑتے قدم سے قدم ملاتے ہوئے وقت کا پتا ہی نہیں چلا اور ہم سرسبز علاقے سے نکل کر چٹیل پہاڑ کے دامن میں آ پہنچے۔

یہاں سے نظارہ قابلِ دید تھا۔ کسی پینسل سے کھینچی ہوئی لکیر کی مانند کارگل روڈ، نالے کی طرح بہتا ہوا دریائے سندھ اور گولاژ میں بُنے ہوئے کپڑے کے ٹکڑوں کی مانند چھوٹے چھوٹے کھیت کھلیان کا نظارہ ناقابلِ بیان ہے۔ نظارے کی توصیف و تعریف کے بعد رضا بھائی نے اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں سے پیٹ بھر کر پانی پی لیں مزید پانی جھیل پر ہی پیا جاسکتا ہے۔ ٹریکنگ کے دوران چونکہ جسم گرم ہوتا ہے لہٰذا چند گھونٹ ہی پی کر گزارا کرنا بہتر سمجھا۔

کچھ دیر سستا لینے کے بعد ہم ایک کچے مگر پتھریلے ٹریک پر دوبارہ چل پڑے۔ جولائی کے آخر میں دوپہر کی تیز دھوپ نے کوہساروں کو تپا کر جیسے تانبا بنا ڈالا تھا۔ مگر ساتھ ہی تیز ہوا کے جھونکے بدن میں دوبارہ جان سی ڈال دیتے تھے اور یوں ہم گرم اور سرد احساسات کے ساتھ آگے بڑھتے رہے۔ جانوروں کے ٹریک کی بدولت راستہ قدرے آسان تھا مگر کسی بھی جھیل تک رسائی حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔

غندوس جنت کے گوشے سے کم نہیں ہے۔ خوبانی، سیب، ناشپاتی، چیری، انگور، بادام اور اس طرح تقریباً ہر قسم کی فصل یہاں کاشت کی جاتی ہے۔ مقامی آبادی نے یہاں کے ندی نالوں سے نکاسی آب کا مستقل انتظام کر رکھا ہے جو غندوس کے جفا کش لوگوں کی محنت کو ظاہر کرتا ہے۔ غندوس کا اصل نام غمزدوس ہے جس کے معنی غم سمیٹنے کی جگہ کے ہیں۔ قدیم زمانے کے لوگ یہاں خوشیاں منانے جمع ہوا کرتے تھے۔ بہرحال میرے لیے تو یہ جگہ بھرپور انداز سے غمزدوس ہی بن گئی کیونکہ گمبہ شغرن سے جونہی ٹریکنگ کا آغاز کیا تو گویا گزشتہ چند ایّام کی تکالیف سے اچانک آزاد سا ہوگیا۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دھوپ کی تمازت کم ہوتی گئی اور پہاڑ کے بیچ وادی کھل سی گئی۔ راہ چلتے چند گھرانوں پر مشتمل ایک آبادی تھی۔ یہاں عموماً گرمیوں میں مقامی لوگ رہائش پذیر ہوتے ہیں۔ اس چھوٹے سے گاؤں کا نام شہڑل سہ ہے۔ پتھروں کی بڑی سلوں پر خشک خوبانی کو سکھاتے ہوئے چند افراد گاؤں میں موجود تھے جنہوں نے ہمیں شیریں خوبانیوں کا تحفہ پیش کیا۔ ہم مزید تازہ دم ہوکر آگے بڑھنے لگے۔ نجم میرے ساتھ ہولیے جبکہ دیگر 2 ساتھی کچھ پیچھے رہ گئے۔

کوہساروں کی بلندی اور پتھروں کی رنگت سے کچھ اندازہ ہونے لگا تھا کہ منزل اب قریب آرہی ہے۔ یہ ایک خاص قسم کا احساس ہے جو کوہ نورد خوب جانتے ہیں، اور میرا اندازہ تھیک نکلا۔

جھیل کی پہلی جھلک بہت ہی دلفریب منظر پیش کررہی تھی۔ یوں لگا جیسے نیلی جھیل صدیوں سے میری منتظر تھی۔ پہاڑوں کی اوٹ سے پڑنے والی سورج کی چند کرنیں سبز مائل نیلگوں پانی کو جھیل کے گہرے نیلے پانی سے الگ کررہی تھیں۔ ہر سو فطرت کا حُسن پھیلتا دکھائی دے رہا تھا اور ماحول پر ایک عجب خاموشی طاری تھی۔

خالق کی صناعی مسحور کن تھی اور ایسے مواقع پر ابن آدم سوائے شکر کے کوئی اور کلمات زبان پر نہیں لاسکتا۔ بلند و بالا پہاڑوں کے بیچ یہ وسیع و عریض جھیلیں انسان کو قدرت کے رازوں کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیتی ہیں۔ اسی سوچ میں ہم جھیل کے گرد بنی پگڈنڈی پر چلتے چلتے جھیل کے وسط تک پہنچ چکے تھے۔ جھیل اتنی وسیع تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔

نجم نے مجھے بتایا کہ یہ ضلع کھرمنگ کی سب سے بڑی جھیل ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ 5 سے 6 کلو تک وزنی ٹراؤٹ مچھلیوں کا مسکن بھی ہے۔ اگر جھیل کو منی سدپارہ کہہ سکوں تو شاید اس کی وسعت کا اندازہ کرنے میں آسانی رہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے شام پھیلنے لگی اور خوش قسمتی سے میں جھیل کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے جا پہنچا۔

بظاہر جھیل کے گرد صرف پہاڑ ہی پہاڑ تھے مگر جب ہم دوسرے کنارے پر پہنچے تو ہمیں سیب اور خوبانیوں سے لدے درختوں کا دیدار نصیب ہوا۔ اس سے قبل بہت سی جھیلیں دیکھنے کا موقع ملا مگر یہ پہلا موقع تھا کہ ایک جھیل کے کنارے اس قدر پھل دار درخت لگے ہوئے ہوں۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے یہ پھل دار درخت قدرت کی طرف سے سیاحوں کے لیے ہی لگائے گئے ہیں۔

بلندی سے گرنے والا گانچھے نالہ اونچائی پر موجود مزید 8 چھوٹی جھیلوں کا پانی سمیٹتا ہوا اس بڑی جھیل میں گرتا ہے۔ نالے کے ساتھ چلتے ہوئے مزید 3 دن کی ٹریکنگ کرکے خپلو شہر پہنچا جاسکتا ہے۔ ایک عرصہ قبل کارگل سے آنے والے فوجی اسی راستہ کے ذریعہ خپلو شہر پہنچا کرتے تھے۔

جھیل کے ساتھ ہی کچھ فاصلے پر چند گھرانے موسمِ گرما میں موجود رہتے ہیں جو گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی پالتو جانوروں کو کوہساروں کے بیچ قدرتی چراہ گاہوں میں چھوڑ آتے ہیں اور ساتھ ساتھ سردیوں کی آمد سے قبل گھاس جمع کرنے کا کام شروع کردیتے ہیں۔

ہم کچھ دیر سستانے کی غرض سے گاؤں جا پہنچے۔ میزبانی تو جیسے یہاں کے لوگوں کا اوّلین فریضہ ہے لہٰذا ایک مقامی میزبان نے ہمیں زو (یاک کی مادہ) کے دودھ کی بنی چائے پیش کی۔ چائے کا ایک کپ ان علاقوں میں تازہ دم کرنے کے لیے کافی ہوتا ہے شکریہ کے ساتھ واپسی کا قصد کیا اور شام 7 بجے واپس گمبہ شغرن جا پہنچے۔

جھیل کی سطح پر بہتی تند و تیز ہوا، سورج کی چڑھتی اور ڈھلتی کرنوں سے جھیل کا بدلتا پانی اور پھلوں سے لدے سیب اور خوبانی کے لہلہاتے ہوئے درخت ایک لمبے عرصہ تک میرے ذہن میں راج کرنے والے ہیں۔ اس امید کے ساتھ کہ اگلے سال جھیل اور نالہ گانچھے کی معیت میں خپلو شہر اتریں گے اور ایک مرتبہ پھر کوہ نورد ان گمنام مگر انتہائی خوبصورت وادیوں کا رخ کریں گے تاکہ بلتستان کی ان حسین وادیوں کو زیادہ سے زیادہ سیاح جان سکیں۔


لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔ انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@

نصر احمد بھٹی

لکھاری تھیولوجی کے طالب علم ہیں اور عربی ادب کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ ہائی کنگ اور ٹریکنگ کے ذریعے قدرت کو بغور دیکھنے کے انتہائی شوقین ہیں۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: BakhatNasr@ . ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔