جم، ورزش، فٹنس اور ہم خواتین
کیا زمانہ آ گیا ہے، اب لڑکیاں بھی ورزش کریں گی؟ توبہ توبہ!‘
‘تمہیں ضرورت کیا ہے جم جانے کی؟ اگر فٹ ہی رہنا ہے تو کام والی کو فارغ کردو اور جھاڑو پونچھا کرو روز۔ بچت کی بچت، کسرت کی کسرت۔’
‘بیگمات کے نخرے ہیں بھیا اور مغرب کی اندھی تقلید، ورنہ شریف زادیاں بھی کبھی ورزش کے چکر میں پڑتی ہیں؟’
‘سب میڈیا کا کیا دھرا ہے، ہماری خواتین کو گمراہ کرنے اور فحاشی پھیلانے میں ٹی وی چینلز کا ہاتھ ہے۔’
یہ اور ان جیسے ان گنت حملوں کی بازگشت آپ کی طرح میں بھی سن چکی ہوں اور اس سوچ میں پڑگئی کہ بحیثیت پاکستانی عورت میں کس قدر باغی ہوں، یا شاید دوسروں کی نسبت زیادہ خوش قسمت اور مراعات یافتہ۔
کیونکہ میرا تعلق پاکستانی خواتین کی اس اقلیت سے ہے جو اپنی خانگی اور پیشہ ورانہ مصروفیات میں سے روز اپنے لیے فرصت کے کچھ لمحے چرا کر خود کو ذہنی و جسمانی طور پر چست اور صحت مند رکھنے کی ہر ممکن سعی کرتی ہیں۔ میں باقاعدگی سے جم جاتی ہوں اور اگر کبھی کسی مصروفیت کی وجہ سے نہ جاسکوں تو گھر میں ہلکی پھلکی ورزش اور چہل قدمی کے ذریعے اپنے فٹنس کے معمول کو جاری رکھتی ہوں۔
پاکستان میں مجھ جیسی خواتین کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ وجہ سادہ سی ہے۔ عورت جو کنبے کی ریڑھ کی ہڈی اور نئی نسل کی تربیت ساز ہے، اس کی جسمانی اور ذہنی صحت بحیثیت معاشرہ ہمیں قطعی غیر ضروری اور بے جا تقاضہ لگتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قدامت پسند لوگوں کو ورزش کرتی خواتین دیکھ کر پچھلے ادوار کی چکی پیسنے اور سل بٹے پر مصالحے کوٹنے والی محنتی عورتیں یاد آنے لگتی ہیں، جبکہ ناقدین کو ان کی کسرت میں نئے دور کی بکھرتی اقدار اور اخلاقی انحطاط کا نوحہ سنائی دیتا ہے۔
اس حوالے سے میرے جم انسٹرکٹر، جو عرفِ عام میں شانی بھائی کہلاتے ہیں اور گلشن اقبال میں پچھلے 10 سالوں سے مرد اور خواتین کے لیے مختلف اوقات کار میں جم چلا رہے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی عورتوں کو صحت مند زندگی گزارنے کے لیے ورزش کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی مردوں کو۔ تاہم عوامی سطح پر نہ اس کا شعور ہے اور نہ ہی یہ ہماری ترجیحات میں یہ شامل ہے۔ سو بمشکل 3 فیصد خواتین ہی جم کا رخ کرتی ہیں اور ان میں سے بھی اکثر شادی کے بعد یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ پاتیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس شعبے میں تربیت یافتہ خواتین انسٹرکٹرز کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے’۔
میرے مشاہدے میں آیا ہے کہ جم میں آنے والی اکثر لڑکیاں اور عورتیں فربہی کا شکار ہوتی ہیں اور ان کا اوّلین مقصد جلد از جلد اپنا زائد وزن کم کرکے بہتر رشتوں کا حصول اور لڑکے والوں کی قبولیت حاصل کرنا ہوتا ہے۔
کچھ ایسی شادی شدہ خواتین سے بھی ملاقات ہوئی جو اپنے خاندان والوں، خصوصاً شوہروں یا منگیتروں کے کہنے پر خود کو دبلا اور پُرکشش رکھنے کے لیے ان فٹنس سینٹر کا رخ کرتی ہیں۔ صحت کے گوناگوں مسائل کا شکار اور اپنے یکساں اور تھکا دینے والے معمول سے بیزار چند ملازمت پیشہ اور گھریلو خواتین بھی ورزش میں راہِ فرار اختیار کرتی نظر آئیں۔
تاہم اپنی خوشی اور ایما سے صحت و چستی کے لیے جم آنے والی خواتین کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے۔ اس کی ایک وجہ جہاں بحیثیت معاشرہ ہماری سطحی سوچ ہے وہاں ایک بڑا سبب غلط ترجیحات اور بڑھتی مہنگائی بھی ہے۔
موجودہ حالات میں جہاں لوگوں کو زندگی کی بنیادی ضروریات بشمول خوراک، رہائش، علاج معالجے، تعلیم اور روزگار کے لالے پڑے ہیں، وہاں خود کو چاق و چوبند رکھنے کے لیے وقت، پیسہ اور توانائی صرف کرنا اکثر لوگوں کو عیاشی معلوم ہوتی ہے، جو محض شوبز سے تعلق رکھنے والے فنکاروں، کھلاڑیوں، سیاستدانوں اور امراء کو جچتی ہے۔
اس حوالے سے پچھلے 25 سال سے طب کے شعبے سے وابستہ ماہرِ امراض خواتین ڈاکٹر شاہانہ علیم کہتی ہیں کہ ’اس غلط فہمی کو دُور کرنے کی ضرورت ہے کہ ورزش کی ضرورت محض موٹے یا بیمار لوگوں کو ہوتی ہے یا یہ محض امیر طبقے کے چونچلے ہیں۔ میرے پاس آنے والی اکثر خواتین کم عمری میں ہی ذیابیطس، کم یا بلند فشارخون، سانس و دل کے امراض، جگر، گردے، ہارمون کی بے قاعدگی، ہڈیوں کی کمزوری اور خون کی کمی جیسے گوناگوں صحت کے مسائل کا شکار ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ نفسیاتی الجھنیں اور مسائل الگ ہیں۔ جس کی ایک بڑی وجہ ابتدا سے اپنی صحت سے لاپروائی، ناقص غذائی عادات اور غیر معیاری طرزِ زندگی ہے’۔
حقیقت یہ ہے کہ جہاں آج پاکستانی خواتین کے پاس موبائل، کمپیوٹر اور ٹی وی اسکرین کے سامنے گنوانے کے لیے فرصت ہی فرصت ہے جبکہ انٹرنیٹ اور فون پیکجز بھی بنیادی ضروریات میں شامل ہوچکے ہیں، وہاں ورزش کرنا، اپنی فٹنس کا خیال رکھنا اور متوازن و صحت بخش غذا کی تیاری اکثر وقت، توانائی اور وسائل کا ضیاع معلوم ہوتا ہے۔
گو پچھلی 2 دہائیوں میں پاکستان میں ورزش کی اہمیت کے حوالے سے لوگوں میں آگاہی بڑھی ہے اور ملک کے طول و عرض میں جم اور فٹنس سینٹر کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، حالانکہ ماضی میں یہ محض پوش علاقوں تک ہی محدود تھا۔ تاہم ان میں سے گنتی کے ادارے ایسے ہیں جو تربیت یافتہ افراد کے زیرِ نگرانی معیاری تربیت اور غذائی معلومات فراہم کرتے ہیں۔ نیز ان میں خواتین کے لیے مخصوص اداروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر سے زیادہ نہیں ہے۔
کچھ کمرشل فٹنس سینٹر ایسے بھی ہیں جو تھوڑے وقت میں زیادہ سے زیادہ نتائج دینے کے بلند و بانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں اور اکثر سادہ لوح اور وزن و فٹنس کے مسائل سے دوچار خواتین و حضرات کو ایسے فارمولے، نسخے اور ڈائٹ پلان بیچتے نظر آتے ہیں جو صحت کے لیے بہت خطرناک ثابت ہوسکتے ہیں۔
یہی نہیں بلکہ بعض فٹنس سینٹرز میں یوگا، ایروبکس، کارڈیو، زمبا، بوکوا (ڈانس ورک آوٹ)، مشینوں پر کسرت اور گروپ ورک آوٹ کے نام پر منہ مانگے دام وصول کرکے خواتین کو ایسے معمولات میں الجھا دیا جاتا ہے جس سے انہیں فائدے کے بجائے نقصان ہونے لگتا ہے۔ نیجتاً وہ خواتین بددل ہوکر ورزش کو مکمل طور پر خیرباد کہہ دیتی ہیں۔
ورزش کے حوالے سے پہلا اصول یہ ہے کہ آپ اپنے مقصد کا واضح تعین کریں اور اپنے جسم، معمولاتِ زندگی اور صحت کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے درست ورزش اور قابلِ عمل ورک آؤٹ پلان اپنائیں۔ اس سلسلے میں مستند انسٹرکٹر کی مدد اور رہنمائی اتنی ہی ضروری ہے جتنا صحیح علاج کے لیے اچھے ڈاکٹر کا انتخاب۔
ماہرینِ امراض قلب کے مظابق مرد ہوں یا خواتین ہر ایک کو ہفتے میں کم از کم 5 دن روزانہ 30 منٹ تک ورزش کرنی چاہیے۔ اس آدھے گھنٹے کو کسی بھی موزوں جسمانی مشغلے بشمول تیراکی، جاگنگ، یوگا، کسرت، یا من پسند آوٹ ڈور کھیل میں باقاعدگی سے صرف کرنا آپ کو دل کی بہت سی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔
دانا کہتے ہیں کہ ’جان ہے تو جہاں ہے، صحت ہے تو خاندان، خوشی اور کاروبار حیات ہے’۔
اس لیے اگر آپ بھی اس بھاگتی دوڑتی بے محار زندگی میں ایک معیاری اور فعال عمر بسر کرنا چاہتے ہیں تو ورزش کو اپنے روزمرہ معمول کا حصہ بنائیں۔ اگر گھر کے نزدیک کوئی معیاری جم، کلب یا فٹنس سینٹر ہے تو اس کا رخ کریں تاکہ باقاعدگی سے تربیت یافتہ افراد کے زیرِ نگرانی ورزش کرسکیں۔ اگر یہ ممکن نہیں تو پھر گھر پر کسرت کے لیے وقت اور جگہ مقرر کریں، مناسب لباس، ورزش میٹ و دیگر ضروری لوازمات کا اہتمام کریں اور رہنمائی کے لیے مستند ومعیاری آن لائن ویب سائٹس پر، ویڈیوز کا سہارا لیں۔ اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتے تو جاگنگ اورچہل قدمی کو باقاعدگی سے اپنے معمولات زندگی کا حصہ بنا لیں۔
یہ طے ہے کہ جسمانی طور پر تندرست و توانا خواتین ہی صحت مند خاندان اور مثبت و فعال معاشرے کی تعمیر کرسکتی ہیں، اس لیے عورتوں کے لیے کھیل کود، ورزش اور خود کو چست رکھنے لیے وقت نکالنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کہ مردوں کے لیے۔
ڈاکٹر ارم حفیظ کراچی کی معروف نجی یونیورسٹی کے میڈیا اسٹڈیز شعبے میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ ڈاکٹر ارم نے جامعہ کراچی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کی ہے۔ ان کا ای میل ایڈریس hafeezerum144@gmail.com ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔