پاکستان کی آزادیِ اظہار کی آڑ میں 'اسلاموفوبیا مہم' کی شدید مذمت
پاکستان نے بعض ترقی یافتہ ممالک کی جانب سے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں گستاخانہ خاکے دوبارہ شائع کرنے کے فیصلے کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔
دفتر خارجہ کے اعلامیے میں کہا گیا کہ بعض غیر ذمہ دار عناصر کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی نمائش اور قرآن پاک کی بے حرمتی کی منظم انداز میں جاری تحریک کی شدید مذمت کرتے ہیں۔
مزیدپڑھیں: فرانسیسی صدر نے جان بوجھ کر مسلمانوں کو اشتعال دلایا، وزیراعظم
ترجمان دفتر خارجہ زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ ترقی یافتہ ممالک کے سیاستدانوں کی جانب سے آزادی اظہار رائے کی آڑ میں سیاسی فوائد کے لیے اسلام کو دہشت گردی کے مساوی قرار دینا قابل مذمت ہے۔
انہوں نے کہا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے تحت اظہار رائے کی آزادی کے حق کا استعمال اس کے ساتھ خصوصی فرائض اور ذمہ داریاں انجام دیتا ہے۔
زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ نسل پرست نظریات کا پھیلاؤ، بدنامی اور دوسرے مذاہب کی تضحیک، مذہبی شخصیات کی توہین، نفرت انگیز تقریر اور تشدد پر اکسانے کو آزادی اظہار کا نام نہیں دیا جا سکتا۔
دفتر خارجہ کے مطابق بین المذاہبی منافرت، دشمنی اور محاذ آرائی کی خواہش رکھنے والی اس طرح کی غیر قانونی اور اسلامو فوبیا کی کارروائیاں، کرائسٹ چرچ جیسی ہولناک دہشت گردی کی وارداتوں کی اصل بنیاد ہیں اور اس طرح تہذیبوں کے مابین امن اور ہم آہنگی کے مستقبل کے امکانات کو متاثر ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر خارجہ کی فرانسیسی میگزین کے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کی مذمت
انہوں نے کہا کہ ہولوکاسٹ سے انکار جیسے حساس معاملات کے لیے مجرمانہ قوانین موجود ہیں، کچھ مغربی ممالک میں چند سیاست دانوں نے مسلمانوں کے جذبات کی توہین کا جواز پیش کیا ہے یہ دوہرے معیار کی عکاسی ہے۔
زاہد حفیظ چوہدری نے کہا کہ پاکستان نے مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر عدم رواداری، امتیازی سلوک اور تشدد سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی کوششوں کی ہمیشہ حمایت جاری رکھی ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان، مذہب یا عقیدے کی بنیاد پر ہر طرح کے تشدد کی مذمت کرتا ہے۔
اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے گستاخانہ خاکوں کی نمائش کی حوصلہ افزائی کر کے اسلام اور ہمارے نبی ﷺ کو ہدف بنا کر مسلمانوں، بشمول اپنے شہریوں کو جان بوجھ کر مشتعل کرنے کی راہ اختیار کی۔
سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں وزیراعظم نے کہا تھا کہ 'کسی رہنما کی خوبی یہ ہوتی ہے وہ انسانوں کو تقسیم کرنے کے بجائے انہیں متحد کرے جیسا کہ نیلسن منڈیلا نے کیا'۔
انہوں نے کہا تھا کہ 'یہ وہ وقت ہے کہ جب ایمانوئیل میکرون دوریاں بڑھانے اور ایک خاص گروہ کو دیوار سے لگانے (جس سے بنیادپرستی کو سازگار ماحول میسر آتا ہے) کے بجائے ان کے زخموں پر مرہم رکھتے اور شدت پسندوں کو گنجائش دینے سے انکار کرتے'۔
فرانسیسی صدر کا متنازع بیان
برطانوی خبررساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق رواں ماہ فرانس کے ایک اسکول میں ایک استاد نے آزادی اظہار رائے کے سبق کے دوران متنازع فرانسیسی میگزین چارلی ہیبڈو کے 2006 میں شائع کردہ گستاخانہ خاکے دکھائے تھے۔
جس کے چند روز بعد ایک شخص نے مذکورہ استاد کا سر قلم کردیا تھا جسے پولیس نے جائے وقوع پر ہی گولی مار کر قتل کردیا تھا اور اس معاملے کو کسی دہشت گرد تنظیم سے منسلک قرار دیا گیا تھا۔
مزید پڑھیں: ترک صدر کا فرانسیسی صدر کو 'دماغی معائنہ' کرانے کی تجویز
مذکورہ واقعے کے بعد فرانسیسی صدر نے گستاخانہ خاکے دکھانے والے استاد کو 'ہیرو' اور فرانسیسی جمہوریہ کی اقدار کو 'مجسم' بنانے والا قرار دیا تھا اور فرانس کے سب سے بڑے شہری اعزاز سے بھی نوازا۔
برطانوی اخبار انڈیپینڈنٹ نیوز کی رپورٹ کے مطابق پیرس میں مذکورہ استاد کی آخری رسومات میں فرانسیسی صدر نے خود شرکت کی جس کے بعد 2 فرانسیسی شہروں کے ٹاؤن ہال کی عمارتوں پر چارلی ہیبڈو کے شائع کردہ گستاخانہ خاکوں کی کئی گھنٹوں تک نمائش کی گئی تھی۔
ایک روز قبل ہی ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے اپنے فرانسیسی ہم منصب پر مسلمانوں سے متعلق متنازع پالیسیوں پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایمانوئل میکرون کو 'دماغی معائنہ' کرانے کی ضرورت ہے۔
ترک صدر نے اناطولیہ کے شہر قیصری میں ٹیلی ویژن پر خطاب میں کہا تھا کہ ایسے سربراہ مملکت کے بارے میں کیا کہہ سکتے ہیں جو مختلف مذہبی گروہوں کے لاکھوں ممبروں کے ساتھ اس طرح سلوک کرتا ہو: سب سے پہلے انہیں اپنا دماغی معائنہ کروانا چاہیے۔
یہ بھی پڑھیں: فرانس: چارلی ہیبڈو کے سابقہ دفاتر کے قریب چاقو کے حملے میں 4 افراد زخمی
خیال رہے کہ یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ فرانسیسی صدر کی جانب سے اسلام مخالف بیان سامنے آیا ہو، قبل ازیں رواں ماہ کے آغاز میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے فرانس کی سیکیولر کے "بنیاد پرست اسلام" کے خلاف دفاع کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی اور اس دوران اسلام مخالف بیان بھی دیا تھا۔
ایمانوئیل میکرون نے فرانس کی سیکیولر اقدار کے 'بنیاد پرست اسلام' کے خلاف 'دفاع' کے لیے منصوبے کو منظر عام پر لاتے ہوئے اسکولوں کی سخت نگرانی اور مساجد کی غیر ملکی فنڈنگ کے بہتر کنٹرول کا اعلان کیا تھا۔
انہوں نے سعودی عرب، قطر اور ترکی جیسے ممالک کا نام لیتے ہوئے، اس بات پر زور دیا تھا کہ فرانس میں 'اسلام کو غیر ملکی اثرات سے آزاد' کروانا ضروری ہے۔
ان کے مطابق اس مقصد کے لیے، حکومت مساجد کی غیر ملکی مالی اعانت کے بارے میں جانچ پڑتال کرے گی اور اماموں کی تربیت کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دینے یا فرانسیسی سرزمین پر غیر ملکی مبلغین کی میزبانی پر پابندی لگائے گی۔
مزید پڑھیں: جامعۃ الازھر کی اسلام کے حوالے سے فرانسیسی صدر کے بیان کی مذمت
جس پر ردِ عمل دیتے ہوئے مصر کے ممتاز اسلامی ادارے جامعۃ الازھر کے اسکالرز نے ''اسلام پسند علیحدگی'' کے حوالے سے فرانسیسی صدر ایمینوئل میکرون کے بیان کو 'نسل پرستانہ' اور 'نفرت انگیز' تقریر قرار دیا تھا۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ فرانسیسی ہفتہ وار میگزین چارلی ہیبڈو کی جانب سے دوبارہ گستاخانہ خاکے شائع کرنے پر فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون نے کہا تھا کہ فرانس میں اظہار رائے کی آزادی ہے اور چارلی ہیبڈو کی جانب سے گستاخانہ خاکے شائع کرنے کے فیصلے پر وہ کوئی حکم نہیں دے سکتے۔