اب محققین نے ایک اہم دریافت کی ہے جس سے وضاحت ہوتی ہے کہ آخر یہ کورونا وائرس قابو سے باہر کیوں ہوا اور اس کی مدد سے نئے اینٹی وائرل علاج کی تیاری میں بھی مدد مل سکے گی۔
ویسے تو یہ کافی مہینے پہلے ہی معلوم ہوچکا تھا کہ کورونا وائرس کا اسپائیک پروٹین انسانی خلیات کو جکڑنے کا کام کرتا ہے، جس کے لیے وہ ایک ریسیپٹر ایس 2 کو ذریعہ بناتا ہے۔
طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع تحقیق میں ایک اور ریسیپٹر نیوروپلین 1 کو دریافت کیا ہے جسے یہ وائرس انسانی خلیات کی سطح کی شناخت اور اندر داخل ہونے کے لیے استعمال کرتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ کورونا وائرس کیس طرح نیورو پلین 1 کو استعمال کرکے اس بیماری کو تیزی سے جسم میں پھیلا دیتا ہے۔
یہ پروٹین انسانی خلیات کی اوپری سطح پر موجود ہوتا ہے، جو کووڈ 19 کے پہلے مرحلے کے دوران میزبان خلیے کو وائرس کا ہدف بناکر اس میں داخل ہونے میں مدد دیتا ہے۔
ایک بار جب یہ وائرس میزبان خلیات سے جڑ جاتا ہے تو وہ خلیے پر قابو پاکر اپنے جینیاتی مواد کو خارج کرکے اس سے اپنی متعدد نقول بنانے کا عمل شروع کردیتا ہے۔
نتائج سے وضاحت ہوتی ہے کہ یہ وائرس اتنا متعدی کیوں ہے اور انسانی خلیات کے درمیان اتنی تیزی سے کیسے پھیلتا ہے۔
برطانیہ کی برسٹل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل محققین نے بتایا کہ نئے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کے سیکونس کا تجزیہ کرنے کے بعد ہم نے ایسے امینو ایسڈز کے چھوٹے سیکونس کو دیکھا جو انسانی پروٹینز یعنی نیوروپلین 1 میں پائے جانے والے سیکونس کی نقل جیسا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اس سے ہمارے سامنے یہ سوال آیا کہ کیا اسپائیک پروٹین نیوروپلین 1 سے مل کر انسانی خلیات میں اس بیماری کا باعث بنتا ہے؟
ان کا کہنا تھا کہ مختلف اقسام بائیو میڈیکل اور ساختی طریقہ کاروں کو آزمانے کے بعد ہم یہ ثابت کرنے کے قابل ہوگئے کہ نئے کورونا وائرس کا اسپائیک پروٹین نیوروپلین 1 کو جکڑ لیتا ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اس طرح یہ وائرس انسانی خلیات کو موثر انداز سے دھوکا دے دیتا ہے کیونکہ عام انسانی پروٹینز جیسے امینو ایسڈز کے سیکونس کے باعث وہ آسانی سے خلیات پر حملہ آور ہوجاتا ہے۔