مزارِ قائد کا تقدس، ’ایم آر ڈی‘ اور ’پی ڈی ایم‘ تحریک کا اس سے تعلق!
مزارِ قائد کا تقدس اور ’ایم آر ڈی‘ اور ’پی ڈی ایم‘ تحریک کا اس سے تعلق!تحریر: اختر بلوچ
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی اتحاد بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں عمران خان کی حکومت کے خلاف ایک اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے تشکیل پایا ہے جس میں 11 جماعتیں شامل ہیں۔
18 اکتوبر کو ان کا جلسہ کراچی میں منعقد ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسا واقعہ بھی ہوا جس کا تعلق مزارِ قائد پر مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی فاتحہ خوانی کے لیے آمد اور پھر ہونے والی نعرے بازی اور اس کے نتیجے میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری سے ہے، اور تاحال یہ ایک ایسا موضوع بنا ہوا ہے جس پر روز ٹی وی چینلز اور اخبارات میں تبصرے جاری ہیں۔
مزارِ قائد پر اس سے قبل بھی ایک بہت بڑا جلسہ ہوا تھا، لیکن یہ 14 اگست 1983ء کی بات ہے۔ اس مظاہرے کے خلاف مزارِ قائد پروٹیکشن آرڈیننس 1971ء کے تحت مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ جس سیاسی اتحاد نے یہ مظاہرہ منعقد کیا تھا اس کا نام ایم آر ڈی تھا۔
ایم آر ڈی کے بارے میں عموماً یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس کی تشکیل 1983ء میں ہوئی، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایم آر ڈی کا وجود 1981ء میں عمل میں آیا تھا۔
ایم آر ڈی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی)، تحریکِ استقلال، پاکستان مسلم لیگ (خواجہ خیر الدین) اور ملک قاسم گروپ، پاکستان نیشنل پارٹی (پی این پی)، عوامی تحریک اور نیپ پختونخواہ شامل تھیں۔
ایم آر ڈی کا مطالبہ تھا کہ مارشل لاء فوری طور پر ختم کرکے آزادانہ اور شفاف انتخابات منعقد کروائے جائیں۔ تحریک کا آغاز بڑے ہی جوش و خروش سے ہوا، اور ملک بھر میں جنرل ضیاء کے خلاف مظاہرے ہونے لگے، لیکن اس موقع پر پی آئی اے کے ایک طیارے کو اغوا کرلیا گیا، جس کی ذمہ داری ‘الذوالفقار’ نامی تنظیم نے قبول کی، جس کے روح رواں ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے میر مرتضیٰ اور شاہنواز تھے۔
اس کے نتیجے میں تحریک کو بہت بڑا نقصان پہنچا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایم آر ڈی میں شامل تمام جماعتوں پر شدید تحفظات تھے۔ جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ‘دختر مشرق’ مطبوعہ 1999 زیرِ اہتمام مساوات پبلی کیشنز اسلام آباد کے صفحہ نمبر 273 تا 277 میں یوں کیا ہے:
’’ایم آر ڈی کی تشکیل سے قبل میری والدہ نے مجھے کہا کہ اس سے پہلے کہ ضیاء اپنی چالوں سے ہمیں مات دے دے، ہمیں اسے مات دینی چاہیے۔ یہ ستمبر کا واقعہ ہے جب جتوئی کو وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش کی گئی تھی۔ ‘اگرچہ اس خیال سے مجھے وحشت ہوتی ہے تاہم ہمیں پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے مثبت رویوں کا استقبال کرنا چاہیے۔ ضیاء کے مخالفین میں پھوٹ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے‘۔ پہلے پہل تو میں خوفزدہ ہوگئی۔ ‘اس سے پارٹی رہنماؤں میں زلزلہ برپا ہوجائے گا’، میں نے احتجاج کیا۔ ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ سب سے پہلے انتخابات میں دھاندلی کے الزام لگانے والے یہی پاکستان قومی اتحاد کے لوگ تھے جنہوں نے قومی آمریت کے لیے راستہ ہموار کیا؟ یہ لوگ ضیاء کی کابینہ میں وزیر تھے جب اس نے پاپا کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ‘لیکن ہمارے پاس اس کے سوا اور کونسا راستہ ہے؟’، والدہ نے پوچھا۔ جب مثالی حالات موجود نہ ہوں تو بدنما حقائق کو قبول کرنا پڑتا ہے۔
’انہوں نے تقریباً 30 ارکان پر مشتمل پی پی پی کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ ہمیں علم تھا کہ ہم ایک بہت بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ سیاسی ملاقاتوں پر پابندی تھی لیکن اگر ہم خاموش تماشائی بنے رہے تو اس کا مطلب حکومت کی کارروائیوں پر سر ہلانا ہوگا۔ یہ اجلاس ایسی ہی دوسری ملاقاتوں کی طرح 70 کلفٹن میں منعقد کیا جارہا تھا۔ رہنما ملک کے دُور دراز علاقوں یعنی صوبہ سرحد اور بلوچستان سے بھی تشریف لائے تھے اور متوقع طور پر مذاکرات میں کافی تلخی دیکھنے میں آئی۔ ‘پاکستان قومی اتحاد کے لوگ قاتل ہیں، قاتل ہیں‘، سندھ کے ایک رکن نے برملا کہا۔ ‘اگر آج ہم ان سے معاہدہ کرتے ہیں تو کل کو جنرل ضیاء سے براہِ راست مذاکرات سے ہمیں کون سی چیز مانع ہوگی؟’
’آخرکار عملیت پسندی کا بول بالا ہوا اور ہم میں سے ہر ایک نے پاکستان قومی اتحاد کے ساتھ سلسلہ جنبانی کو ترجیح دی۔ تحریک بحالی جمہوریت یعنی ایم آر ڈی کے تانے بانے کو تشکیل دیا گیا۔
’ذاتی طور پر مجھے اپنے والد کے پرانے دشمنوں کے ساتھ اتحاد قبول کرنے میں دقت محسوس ہور ہی تھی۔ سابقہ مخالف پارٹیوں کو بھی پی پی پی کے ساتھ مذاکرات میں ایسی ہی مشکل کا سامنا تھا۔ وہ آپس میں بھی کھل کر بات چیت کرنے سے احتراز کرتے تھے۔ ابتدائی ملاقاتوں میں شدید مخالف پارٹیوں کے رہنما ایک دوسرے سے براہِ راست بات چیت سے گھبراتے رہے اور ایلچیوں کے ذریعہ مصروفِ گفتگو رہے۔ خیالات میں تلخی کی بناء پر پورے طریقہ کار میں پیچیدگی پیدا ہوگئی، خاص طور پر مجوزہ ایم آر ڈی کے چارٹر پر، یعنی آیا 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا نہیں، آیا میرے والد کی موت کو بیان کرنے کے لیے لفظ ‘پھانسی’ کا استعمال کیا جائے گا یا ‘قتل’۔ اکتوبر 1980ء سے فروری 1981ء تک کے 4 طویل مہینوں کے بعد تعطل دُور ہوا اور تمام 10 پارٹیوں نے ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرنے میں کامیابی حاصل کی مگر یہ بھی کوئی آسان معاہدہ نہیں تھا۔
’میں نے اپنے والد کے سابقہ مخالفین کو ان کے گھر میں ان کی بیوہ جو پی پی پی کی چیئرپرسن تھیں اور بیٹی سے سیاسی معاہدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ سیاست کس قدر عجیب چیز ہے؟ پاکستان جمہوری پارٹی کے نصراللہ خان ترکی ٹوپی پہنے ہوئے میری والدہ کے دائیں بازو کی طرف بیٹھے۔ اصغر خان کی معتدل مزاج تحریک استقلال کے بھرے ہوئے چہرے والے قصوری ان کے نمائندے کے طور پر میرے بالمقابل براجمان تھے۔ مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے باریش رہنما کمرے کے ایک طرف تھے اور دوسری طرف بائیں بازو کی ایک چھوٹی سی پارٹی کے رہنما فتح یاب علی خان جنہوں نے کلف لگا ہوا چوڑی دار کرتا اور تنگ پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ تقریباً 20 کے قریب افراد تھے، جن میں سے اکثریت سابقہ پاکستان قومی اتحاد کے رہنماؤں کی تھی۔ میں اپنے آپ کو یاد دلاتی رہی کہ اصل بات تو ضیاء کو اقتدار سے محروم کرنا اور متضاد خیالات کے باوجود سیاسی اتحاد کو مضبوط کرکے ضیاء کو انتخابات منعقد کرانے پر مجبور کرنا تھا۔ یہ امر بہت مشکل تھا۔ سگریٹ کا دھواں اور جذبات کا اشتعال بڑھتا رہا۔ ڈرائنگ روم کی دیواروں پر مخملیں پوش اور چھت پر فانوس جگمگاتے رہے اور اجلاس طویل ہوگیا کہ دوسری صبح دوبارہ منعقد کرنا پڑا۔ ایک مرحلے پر پاکستان قومی اتحاد کے ایک سابق رہنما نے 1977ء کی متشدد تحریک میں اپنی پارٹی کے کردار کے جواز پر تقریر شروع کردی۔ میں اپنے ہی گھر میں پی پی پی پر بالواسطہ تنقید سن کر حیران رہ گئی۔ ‘یہاں ہم جمہوریت کی خاطر ایک اتحاد کے بارے میں مذاکرات پر اکھٹے ہوئے ہیں نہ کہ اس بحث کے لیے کہ آپ ہمیں کیا سمجھتے ہیں یا ہم آپ کو کیا سمجھتے ہیں‘، میں نے سرد لہجے میں کہا۔ تاہم مجھے ان سیاستدانوں کو اس حالت میں دیکھنا عجیب لگا کہ میرے والد کے دشمن آج اسی کے پیالوں میں کافی پی رہے تھے، اسی کے ٹیلی فون پر اپنے دوستوں کو ہیجان خیز پیغام دے رہے تھے کہ ‘ہاں میں 70 کلفٹن میں بیٹھا ہوں، حقیقت یہی ہے کہ یہ مسز بھٹو ہی کا گھر ہے‘۔
’آخرکار 2 فروری 1981ء کو تحریک بحالی جمہوریت کی پیدائش ہوئی۔ ایم آر ڈی کے منشور پر دستخط ہونے کی خبر جب لوگوں نے بی بی سی کی نشریات پر سنی تو پاکستان کے طول و عرض میں برقی رو کی طرح دوڑ گئی۔ اس خبر نے لوگوں کو ایک نفسیاتی حوصلہ دیا اور ان کا خیال تھا کہ یہ مارشل لاء حکومت کی ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کا ابتدائیہ ہے۔ بے چینی جلد ہی سندھ اور پنجاب میں پھیل گئی، جہاں یونیورسٹی پروفیسر، وکلا اور ڈاکٹر ابھرتی ہوئی تحریک کے احتجاج میں جوق در جوق شامل ہوتے چلے گئے۔ ضیاء سمجھ گیا تھا کہ وہ شکنجے میں پھنس گیا ہے۔ اس نے پورے پاکستان میں تمام یونیورسٹیاں بند کردیں اور 5 افراد سے زیادہ کے اجتماع پر پابندی لگادی، لیکن مظاہرے جاری رہے۔
’2 مارچ 1981ء میں 70 کلفٹن میں اپنے رہائشی کمرے میں پارٹی کارکنوں کے ایک گروہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہوں کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ یہ ابراہیم خان ہے جو کراچی میں رائٹرز کا نمائندہ ہے۔ ‘آپ کا اس خبر کے بارے میں کیا ردِعمل ہے؟ کونسی خبر؟ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کا ایک طیارہ اغوا کرلیا گیا ہے۔ کس نے اغواء کیا؟ میں تلملا کر پوچھتی ہوں‘۔ پی آئی اے کا طیارہ اس سے قبل کبھی اغوا نہیں کیا گیا تھا۔ ‘ابھی تک اس کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں‘، وہ کہتا ہے۔ ‘کوئی شخص بھی نہیں جانتا کہ اغوا کنندگان کون ہیں؟ وہ طیارے کو کہا لے جارہے ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟ میں پتہ کرنے کی کوشش کروں گا اور آپ کو باخبر رکھوں گا۔ لیکن کیا آپ مجھے اپنا ردِعمل بتاسکیں گی‘۔ ’ہمارا ایک طیارہ اغوا کرلیا گیا ہے، مجھے بھی صرف اتنا ہی پتہ چلا ہے۔‘‘
جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اس طیارے کے اغوا کی ذمے داری الذوالفقار نامی تنظیم نے قبول کی تھی جس کے رہنما میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو تھے۔ طیارے کے اس اغوا نے ایم آر ڈی کی کمر توڑ دی اور تحریک آہستہ آہستہ معدوم ہوگئی۔
اس تحریک نے 1983ء میں دوبارہ جنم لیا اور 12 اگست کو کراچی میں ہونے والے ایک اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ 14 اگست کی صبح 11 بجے تحریک کے رہنما اور کارکن مزارِ قائد پر حاضری دیں گے اور وہاں تحریک کے رہنما خطاب فرمائیں گے۔ کارکنوں کی ایک بڑی تعداد مزارِ قائد پر پہنچ گئی جن کی قیادت غلام مصطفیٰ جتوئی اور معراج محمد خان کر رہے تھے۔ اس موقع پر ضیا حمایت تحریک اور انجمن اتحاد المسلمون کے جلوس بھی وہاں پر پہنچ گئے اور اس کے بعد ایم آر ڈی کے کارکنوں اور ضیا حمایت تحریک کے حامیوں میں تصادم شروع ہوگیا جس کا احوال پروفیسر غفور احمد نے اپنی کتاب ’جنرل ضیا کے آخری 10 سال‘ اشاعت اول جولائی 1993ء جنگ پبلشرز لاہور کے صفحہ نمبر 138 سے 139 پر یوں بیان کیا ہے۔
تحریر: اختر بلوچ
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں سیاسی اتحاد بنتے اور بگڑتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں عمران خان کی حکومت کے خلاف ایک اتحاد، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے نام سے تشکیل پایا ہے جس میں 11 جماعتیں شامل ہیں۔
18 اکتوبر کو ان کا جلسہ کراچی میں منعقد ہوا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک ایسا واقعہ بھی ہوا جس کا تعلق مزارِ قائد پر مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی فاتحہ خوانی کے لیے آمد اور پھر ہونے والی نعرے بازی اور اس کے نتیجے میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری سے ہے، اور تاحال یہ ایک ایسا موضوع بنا ہوا ہے جس پر روز ٹی وی چینلز اور اخبارات میں تبصرے جاری ہیں۔
مزارِ قائد پر اس سے قبل بھی ایک بہت بڑا جلسہ ہوا تھا، لیکن یہ 14 اگست 1983ء کی بات ہے۔ اس مظاہرے کے خلاف مزارِ قائد پروٹیکشن آرڈیننس 1971ء کے تحت مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ جس سیاسی اتحاد نے یہ مظاہرہ منعقد کیا تھا اس کا نام ایم آر ڈی تھا۔
ایم آر ڈی کے بارے میں عموماً یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ اس کی تشکیل 1983ء میں ہوئی، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ایم آر ڈی کا وجود 1981ء میں عمل میں آیا تھا۔
ایم آر ڈی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی (این ڈی پی)، تحریکِ استقلال، پاکستان مسلم لیگ (خواجہ خیر الدین) اور ملک قاسم گروپ، پاکستان نیشنل پارٹی (پی این پی)، عوامی تحریک اور نیپ پختونخواہ شامل تھیں۔
ایم آر ڈی کا مطالبہ تھا کہ مارشل لاء فوری طور پر ختم کرکے آزادانہ اور شفاف انتخابات منعقد کروائے جائیں۔ تحریک کا آغاز بڑے ہی جوش و خروش سے ہوا، اور ملک بھر میں جنرل ضیاء کے خلاف مظاہرے ہونے لگے، لیکن اس موقع پر پی آئی اے کے ایک طیارے کو اغوا کرلیا گیا، جس کی ذمہ داری ‘الذوالفقار’ نامی تنظیم نے قبول کی، جس کے روح رواں ذوالفقار علی بھٹو کے بیٹے میر مرتضیٰ اور شاہنواز تھے۔
اس کے نتیجے میں تحریک کو بہت بڑا نقصان پہنچا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کو ایم آر ڈی میں شامل تمام جماعتوں پر شدید تحفظات تھے۔ جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب ‘دختر مشرق’ مطبوعہ 1999 زیرِ اہتمام مساوات پبلی کیشنز اسلام آباد کے صفحہ نمبر 273 تا 277 میں یوں کیا ہے:
’’ایم آر ڈی کی تشکیل سے قبل میری والدہ نے مجھے کہا کہ اس سے پہلے کہ ضیاء اپنی چالوں سے ہمیں مات دے دے، ہمیں اسے مات دینی چاہیے۔ یہ ستمبر کا واقعہ ہے جب جتوئی کو وزارتِ عظمیٰ کی پیشکش کی گئی تھی۔ ‘اگرچہ اس خیال سے مجھے وحشت ہوتی ہے تاہم ہمیں پاکستان قومی اتحاد کی طرف سے مثبت رویوں کا استقبال کرنا چاہیے۔ ضیاء کے مخالفین میں پھوٹ ڈالنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے‘۔ پہلے پہل تو میں خوفزدہ ہوگئی۔ ‘اس سے پارٹی رہنماؤں میں زلزلہ برپا ہوجائے گا’، میں نے احتجاج کیا۔ ہم کیسے بھول سکتے ہیں کہ سب سے پہلے انتخابات میں دھاندلی کے الزام لگانے والے یہی پاکستان قومی اتحاد کے لوگ تھے جنہوں نے قومی آمریت کے لیے راستہ ہموار کیا؟ یہ لوگ ضیاء کی کابینہ میں وزیر تھے جب اس نے پاپا کو موت کے گھاٹ اتارا۔ ‘لیکن ہمارے پاس اس کے سوا اور کونسا راستہ ہے؟’، والدہ نے پوچھا۔ جب مثالی حالات موجود نہ ہوں تو بدنما حقائق کو قبول کرنا پڑتا ہے۔
’انہوں نے تقریباً 30 ارکان پر مشتمل پی پی پی کی مرکزی ایگزیکٹو کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ ہمیں علم تھا کہ ہم ایک بہت بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ سیاسی ملاقاتوں پر پابندی تھی لیکن اگر ہم خاموش تماشائی بنے رہے تو اس کا مطلب حکومت کی کارروائیوں پر سر ہلانا ہوگا۔ یہ اجلاس ایسی ہی دوسری ملاقاتوں کی طرح 70 کلفٹن میں منعقد کیا جارہا تھا۔ رہنما ملک کے دُور دراز علاقوں یعنی صوبہ سرحد اور بلوچستان سے بھی تشریف لائے تھے اور متوقع طور پر مذاکرات میں کافی تلخی دیکھنے میں آئی۔ ‘پاکستان قومی اتحاد کے لوگ قاتل ہیں، قاتل ہیں‘، سندھ کے ایک رکن نے برملا کہا۔ ‘اگر آج ہم ان سے معاہدہ کرتے ہیں تو کل کو جنرل ضیاء سے براہِ راست مذاکرات سے ہمیں کون سی چیز مانع ہوگی؟’
’آخرکار عملیت پسندی کا بول بالا ہوا اور ہم میں سے ہر ایک نے پاکستان قومی اتحاد کے ساتھ سلسلہ جنبانی کو ترجیح دی۔ تحریک بحالی جمہوریت یعنی ایم آر ڈی کے تانے بانے کو تشکیل دیا گیا۔
’ذاتی طور پر مجھے اپنے والد کے پرانے دشمنوں کے ساتھ اتحاد قبول کرنے میں دقت محسوس ہور ہی تھی۔ سابقہ مخالف پارٹیوں کو بھی پی پی پی کے ساتھ مذاکرات میں ایسی ہی مشکل کا سامنا تھا۔ وہ آپس میں بھی کھل کر بات چیت کرنے سے احتراز کرتے تھے۔ ابتدائی ملاقاتوں میں شدید مخالف پارٹیوں کے رہنما ایک دوسرے سے براہِ راست بات چیت سے گھبراتے رہے اور ایلچیوں کے ذریعہ مصروفِ گفتگو رہے۔ خیالات میں تلخی کی بناء پر پورے طریقہ کار میں پیچیدگی پیدا ہوگئی، خاص طور پر مجوزہ ایم آر ڈی کے چارٹر پر، یعنی آیا 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی یا نہیں، آیا میرے والد کی موت کو بیان کرنے کے لیے لفظ ‘پھانسی’ کا استعمال کیا جائے گا یا ‘قتل’۔ اکتوبر 1980ء سے فروری 1981ء تک کے 4 طویل مہینوں کے بعد تعطل دُور ہوا اور تمام 10 پارٹیوں نے ایک متفقہ لائحہ عمل طے کرنے میں کامیابی حاصل کی مگر یہ بھی کوئی آسان معاہدہ نہیں تھا۔
’میں نے اپنے والد کے سابقہ مخالفین کو ان کے گھر میں ان کی بیوہ جو پی پی پی کی چیئرپرسن تھیں اور بیٹی سے سیاسی معاہدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ سیاست کس قدر عجیب چیز ہے؟ پاکستان جمہوری پارٹی کے نصراللہ خان ترکی ٹوپی پہنے ہوئے میری والدہ کے دائیں بازو کی طرف بیٹھے۔ اصغر خان کی معتدل مزاج تحریک استقلال کے بھرے ہوئے چہرے والے قصوری ان کے نمائندے کے طور پر میرے بالمقابل براجمان تھے۔ مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام کے باریش رہنما کمرے کے ایک طرف تھے اور دوسری طرف بائیں بازو کی ایک چھوٹی سی پارٹی کے رہنما فتح یاب علی خان جنہوں نے کلف لگا ہوا چوڑی دار کرتا اور تنگ پاجامہ پہنا ہوا تھا۔ تقریباً 20 کے قریب افراد تھے، جن میں سے اکثریت سابقہ پاکستان قومی اتحاد کے رہنماؤں کی تھی۔ میں اپنے آپ کو یاد دلاتی رہی کہ اصل بات تو ضیاء کو اقتدار سے محروم کرنا اور متضاد خیالات کے باوجود سیاسی اتحاد کو مضبوط کرکے ضیاء کو انتخابات منعقد کرانے پر مجبور کرنا تھا۔ یہ امر بہت مشکل تھا۔ سگریٹ کا دھواں اور جذبات کا اشتعال بڑھتا رہا۔ ڈرائنگ روم کی دیواروں پر مخملیں پوش اور چھت پر فانوس جگمگاتے رہے اور اجلاس طویل ہوگیا کہ دوسری صبح دوبارہ منعقد کرنا پڑا۔ ایک مرحلے پر پاکستان قومی اتحاد کے ایک سابق رہنما نے 1977ء کی متشدد تحریک میں اپنی پارٹی کے کردار کے جواز پر تقریر شروع کردی۔ میں اپنے ہی گھر میں پی پی پی پر بالواسطہ تنقید سن کر حیران رہ گئی۔ ‘یہاں ہم جمہوریت کی خاطر ایک اتحاد کے بارے میں مذاکرات پر اکھٹے ہوئے ہیں نہ کہ اس بحث کے لیے کہ آپ ہمیں کیا سمجھتے ہیں یا ہم آپ کو کیا سمجھتے ہیں‘، میں نے سرد لہجے میں کہا۔ تاہم مجھے ان سیاستدانوں کو اس حالت میں دیکھنا عجیب لگا کہ میرے والد کے دشمن آج اسی کے پیالوں میں کافی پی رہے تھے، اسی کے ٹیلی فون پر اپنے دوستوں کو ہیجان خیز پیغام دے رہے تھے کہ ‘ہاں میں 70 کلفٹن میں بیٹھا ہوں، حقیقت یہی ہے کہ یہ مسز بھٹو ہی کا گھر ہے‘۔
’آخرکار 2 فروری 1981ء کو تحریک بحالی جمہوریت کی پیدائش ہوئی۔ ایم آر ڈی کے منشور پر دستخط ہونے کی خبر جب لوگوں نے بی بی سی کی نشریات پر سنی تو پاکستان کے طول و عرض میں برقی رو کی طرح دوڑ گئی۔ اس خبر نے لوگوں کو ایک نفسیاتی حوصلہ دیا اور ان کا خیال تھا کہ یہ مارشل لاء حکومت کی ناانصافیوں کے خلاف احتجاج کا ابتدائیہ ہے۔ بے چینی جلد ہی سندھ اور پنجاب میں پھیل گئی، جہاں یونیورسٹی پروفیسر، وکلا اور ڈاکٹر ابھرتی ہوئی تحریک کے احتجاج میں جوق در جوق شامل ہوتے چلے گئے۔ ضیاء سمجھ گیا تھا کہ وہ شکنجے میں پھنس گیا ہے۔ اس نے پورے پاکستان میں تمام یونیورسٹیاں بند کردیں اور 5 افراد سے زیادہ کے اجتماع پر پابندی لگادی، لیکن مظاہرے جاری رہے۔
’2 مارچ 1981ء میں 70 کلفٹن میں اپنے رہائشی کمرے میں پارٹی کارکنوں کے ایک گروہ کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہوں کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے۔ یہ ابراہیم خان ہے جو کراچی میں رائٹرز کا نمائندہ ہے۔ ‘آپ کا اس خبر کے بارے میں کیا ردِعمل ہے؟ کونسی خبر؟ پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کا ایک طیارہ اغوا کرلیا گیا ہے۔ کس نے اغواء کیا؟ میں تلملا کر پوچھتی ہوں‘۔ پی آئی اے کا طیارہ اس سے قبل کبھی اغوا نہیں کیا گیا تھا۔ ‘ابھی تک اس کے بارے میں کسی کو کچھ علم نہیں‘، وہ کہتا ہے۔ ‘کوئی شخص بھی نہیں جانتا کہ اغوا کنندگان کون ہیں؟ وہ طیارے کو کہا لے جارہے ہیں اور وہ کیا چاہتے ہیں؟ میں پتہ کرنے کی کوشش کروں گا اور آپ کو باخبر رکھوں گا۔ لیکن کیا آپ مجھے اپنا ردِعمل بتاسکیں گی‘۔ ’ہمارا ایک طیارہ اغوا کرلیا گیا ہے، مجھے بھی صرف اتنا ہی پتہ چلا ہے۔‘‘
جیسا کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ اس طیارے کے اغوا کی ذمے داری الذوالفقار نامی تنظیم نے قبول کی تھی جس کے رہنما میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو تھے۔ طیارے کے اس اغوا نے ایم آر ڈی کی کمر توڑ دی اور تحریک آہستہ آہستہ معدوم ہوگئی۔
اس تحریک نے 1983ء میں دوبارہ جنم لیا اور 12 اگست کو کراچی میں ہونے والے ایک اجلاس میں یہ طے کیا گیا کہ 14 اگست کی صبح 11 بجے تحریک کے رہنما اور کارکن مزارِ قائد پر حاضری دیں گے اور وہاں تحریک کے رہنما خطاب فرمائیں گے۔ کارکنوں کی ایک بڑی تعداد مزارِ قائد پر پہنچ گئی جن کی قیادت غلام مصطفیٰ جتوئی اور معراج محمد خان کر رہے تھے۔ اس موقع پر ضیا حمایت تحریک اور انجمن اتحاد المسلمون کے جلوس بھی وہاں پر پہنچ گئے اور اس کے بعد ایم آر ڈی کے کارکنوں اور ضیا حمایت تحریک کے حامیوں میں تصادم شروع ہوگیا جس کا احوال پروفیسر غفور احمد نے اپنی کتاب ’جنرل ضیا کے آخری 10 سال‘ اشاعت اول جولائی 1993ء جنگ پبلشرز لاہور کے صفحہ نمبر 138 سے 139 پر یوں بیان کیا ہے۔