امریکا: صدارتی امیدواروں کا آخری مباحثہ، ٹرمپ کے جو بائیڈن پر بدعنوانی کے الزامات
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے ڈیموکریٹک حریف جو بائیڈن نے جمعرات کو آخری صدارتی مباحثے کے دوران کورونا وائرس کے بارے میں شدید تضادات پیش کیے اور 3 نومبر کے انتخابات سے 12 روز قبل چند غیر منحرف رائے دہندگان کو راضی کرنے کی کوشش کی۔
غیر ملکی خبر رساں اداروں کی رپورٹ کے مطابق ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے اس سے قبل گزشتہ ماہ پہلے صدارتی صدارتی مباحثے کے دوران اس سے کہیں زیادہ سنجیدہ لہجہ اپنایا تھا جہاں انہوں نے بار بار جو بائیڈن کی بات کے دوران مداخلت کی تھی جبکہ آخری مباحثے میں بھی دونوں کے درمیان ذاتی نوعیت کے حملے دیکھے گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بائیڈن اور ان کے اہل خانہ پر بدعنوانی کے الزامات لگائے۔
ٹینیسی کے شہر نیش وِل میں ٹی وی پر نشر ہونے والا یہ مباحثہ ڈونڈ ٹرمپ کی وبائی مرض کے حوالے سے مہم کو نئی شکل دینے کی آخری کوشش تھی۔
مزید پڑھیں: یہ کوئی ریئلٹی شو نہیں ہے، اوباما کی ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید
خیال رہے کہ امریکا میں کورونا وائرس سے اب تک 2 لاکھ 21 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور وائرس کے پھیلاؤ پر امریکی صدر کی پالیسیوں پر سخت تنقید کی جارہی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کئی مہینوں سے پولز میں جو بائیڈن سے پیچھے رہے ہیں جبکہ چند ریاستوں میں یہ مقابلہ سخت ہے جہاں سے انتخابات کے فیصلے کا امکان ہے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ’جو بھی شخص اتنی ہلاکتوں کا ذمہ دار ہو اسے امریکا کا صدر نہیں ہونا چاہیے‘۔
ٹرمپ نے وبا پر اپنے نقطہ نظر کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ تازہ اضافے کے باوجود بھی ملک دوبارہ کاروبار بند کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس کے ساتھ رہنا سیکھ رہے ہیں، ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے‘۔
اس پر جو بائیڈن کا کہنا تھا کہ ’اس کے ساتھ رہنا سیکھ رہے ہیں؟، ہم اس سے مر رہے ہیں‘۔
ٹرمپ نے زور دیا کہ ایک ویکسین ممکنہ طور پر ’ہفتوں‘ دور ہے جبکہ انتظامیہ کے عہدیداروں سمیت زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ 2021 کے وسط تک کسی ویکسین کے وسیع پیمانے پر دستیاب ہونے کا امکان نہیں ہے۔
جمعرات کو متعدد امریکی ریاستوں، بشمول انتخابات کے نتائج کے لیے اہم ریاست اوہائیو میں کورونا وائرس انفیکشن میں ریکارڈ ایک روزہ اضافہ سامنے آیا ہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وبائی امراض میں ایک بار پھر تیزی آرہی ہے۔
مباحثے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے جو بائیڈن کو کیریئر سیاستدان کے طور پر پیش کیا جس کا تقریباً 50 سالہ ریکارڈ کمزور ہے تاہم جو بائیڈن بار بار گفتگو کا رخ صدر کی حیثیت سے ٹرمپ کے 4 سال پر لے کر گئے اور یہ بتایا کہ وائرس نے لوگوں کی زندگیوں کو معاشی نقصان پہنچا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ-جو بائیڈن مباحثہ میں ’میوٹ‘ کا بٹن بھی شامل کیا جائے گا
ٹرمپ نے اپنے الزامات کو دہرایا کہ جو بائیڈن اور ان کے بیٹے ہنٹر، چین اور یوکرین میں غیر اخلاقی کاموں میں مشغول ہیں تاہم انہوں نے ان الزامات کی حمایت میں کوئی ثبوت پیش نہیں کیا اور جو بائیڈن کو انہوں نے جھوٹا اور بدنام قرار دیا۔
خارجہ پالیسی کی طرف رخ کرتے ہوئے جو بائیڈن نے ٹرمپ پر شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کے ساتھ ملاقات پر ’ٹھگ‘ کے قریب جانے کا الزام عائد کیا اور امریکا کے قریب غیر قانونی طور پر جنوبی سرحد عبور کرنے کی کوشش کرنے والے والدین سے بچوں کو الگ کرنے کی ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی پر تنقید کی۔
’بے معنی گفتگو‘
بائیڈن نے اپنے اہلخانہ کا دفاع کرتے ہوئے ٹرمپ پر امریکیوں کی توجہ کا رخ موڑنے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے بھی کسی دوسرے ملک سے ’ایک پیسہ‘ بھی نہیں بنایا۔
بائیڈن نے براہ راست کیمرے کی جانب دیکھتے ہوئے کہا کہ ’اس بے معنی گفتگو کی ایک وجہ ہے، یہ ان کے اہلخانہ اور میرے اہلخانہ کے بارے میں نہیں ہے بلکہ یہ آپ کے خاندان کے بارے میں ہے اور اس سے آپ کے خاندان کو بری طرح تکلیف پہنچ رہی ہے‘۔
انہوں نے ٹرمپ پر نیو یارک ٹائمز کی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے ٹیکسوں کی ادائیگی سے گریز کرنے کا الزام عائد کیا۔
واضح رہے کہ رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ٹرمپ کے ٹیکس گوشواروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے 20 سال سے زیادہ عرصے کے دوران کوئی فیڈرل انکم ٹیکس ادا نہیں کیا۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ’اپنے ٹیکس گوشوارے جاری کریں یا بدعنوانی کے بارے میں بات کرنا چھوڑ دیں‘۔
سابق نائب صدر نے نشاندہی کی کہ انہوں نے 22 سال تک کے ٹیکس گوشوارے جاری کردیئے ہیں اور صدر کو چیلینج کیا کہ وہ اپنا ریٹرن جاری کردیں ’آپ کیا چھپا رہے ہیں؟‘۔
ٹرمپ نے کہا کہ انہوں نے چین میں اپنا سابقہ اکاؤنٹ بند کردیا ہے اور دعوی کیا کہ ان کے اکاؤنٹنٹس نے انہیں بتایا ہے کہ انہوں نے ’لاکھوں ڈالر پری پیڈ‘ ٹیکس ادا کر رکھا ہے۔
انہوں نے پھر کہا کہ طویل عرصے زیر التوا آڈٹ مکمل ہونے کے بعد ہی وہ اپنی ٹیکس گوشوارے جاری کریں گے۔
امیدواروں نے صحت کی دیکھ بھال، چین کی پالیسی اور کئی مہینوں تک جاری رہنے والی نسل پرستی کے مخالف احتجاج پر تکرار کی۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ٹرمپ تاریخ کے ’سب سے بڑے نسل پرست صدور‘ میں سے ایک ہیں جو نسل پرستی کی ہر آگ پر ایندھن ڈالتے ہیں۔
جو بائیڈن نے ٹرمپ کی جانب سے سفید فام بالادست پرستوں کی مذمت سے انکار اور بلیک لائیوز میٹر تحریک پر حملوں کو بھی یاد دلایا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آپ جانتے ہیں کہ میں کون ہوں، آپ جانتے یہ کہ یہ کون ہے، آپ کو اس کا کردار معلوم ہے اور آپ میرا کردار بھی جانتے ہو‘۔
مزید پڑھیں: جو بائیڈن نے ٹرمپ کے ساتھ انتخابی مباحثے سے انکار کردیا
ٹرمپ نے جو بائیڈن کے 1994 کے ایک جرائم بل کی تصنیف پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’انہوں نے 1860 کی دہائی میں ابراہم لنکن کو چھوڑ کر کسی بھی صدر کے مقابلے میں سیاہ فام امریکیوں کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے‘۔
صحت کی دیکھ بھال ایکٹ پر تکرار
جو بائیڈن نے ڈونلڈ ٹرمپ کی سستی دیکھ بھال ایکٹ (اے سی اے) 2010 کو ختم کرنے کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع پر تنقید کی جسے سابق امریکی صدر براک اوباما کے دور میں منظور کیا گیا تھا جس وقت جو بائیڈن نائب صدر تھے۔
جو بائیڈن نے کہا کہ ’لوگ سستی صحت کی دیکھ بھال کے مستحق ہیں‘۔
انہوں نے نشاندہی کی کہ اس قانون سے انشورنس کمپنیاں پہلے سے کسی بیماری میں مبتلا لوگوں کی کوریج سے انکار کرنے سے روک دیا تھا۔
ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ وہ اے سی اے کے مقابلے میں ’اس سے بہتر‘ قانون لانا چاہتے ہیں جو وہی تحفظ فراہم کرے گا تاہم ٹرمپ انتظامیہ نے کئی سالوں سے ایسا کرنے کے وعدے کے باوجود ابھی تک صحت سے متعلق ایک جامع منصوبہ پیش نہیں کیا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے بارے میں ایک سیگمنٹ کے دوران جو بائیڈن نے کہا کہ ان کا ماحولیاتی منصوبہ قابل تجدید توانائی کے ذرائع کے حق میں ’تیل کی صنعت سے منتقلی‘ کا باعث بنے گا۔
اس پر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ ’یہ تیل کی صنعت کو تباہ کردے گا، کیا تمہیں ٹیکساس یاد ہے، کیا تمہیں پینسلوانیا یاد ہے‘۔
شاید یہ احساس کرتے ہوئے کہ ٹرمپ فوراً یہ رد عمل دیں گے، جو بائیڈن نے بحث کے بعد جہاز میں سوار ہوتے وقت اس پر وضاحت دی اور اعلان کیا کہ ’ہم فاسل فیول پر پابندی نہیں لگائیں گے، ہم فاسل فیول کی سبسڈی سے نجات حاصل کریں گے لیکن طویل عرصے تک فاسل فیول سے نجات حاصل نہیں کریں گے‘۔
نئی دہلی میں بدترین اسموگ
امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت کو ماحولیات کے حوالے سے بدترین ملک قرار دینے کے چند گھنٹوں بعد نئی دہلی کو بدترین اسموگ نے لپیٹ میں لے لیا۔
سینٹرل پولیوشن کنٹرول بورڈ کا کہنا تھا کہ دہلی میں آلودگی سے متعلق نگرانی کرنے والی 36 سائٹس کے مطابق یہ سطح 282 سے 446 کے درمیان ہے جو بدترین کیٹگری ہے جبکہ بہترین کیٹگری صفر سے 50 کے درمیان ہوتی ہے۔
سرکاری سطح پر چلنے والے سسٹم آف ایئر کوالٹی ویدر فوکاسٹنگ اینڈ ریسرچ کا کہنا تھا کہ دو ریاستوں ہریانا اور پنجاب میں فضلے کو جلانے کی تعداد میں اضافہ ہوگیا ہے اور دہلی کی سطح میں 17 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگلے دو دنوں میں فضائی آلودگی میں مزید بدتری کا خدشہ ہے۔
اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارتی مباحثے میں ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے اپنا مؤقف بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ فضائی آلودگی سے نمٹنے کے لیے اقدامات امریکا کے لیے سود مند نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘چین کی طرف دیکھیے، وہاں کس قدر آلودگی ہے، روس اور بھارت کو دیکھیے، وہاں بھی آلودگی ہے، فضا آلودہ ہے’۔
ٹرمپ کے بیان کے فوری بعد ٹوئٹر پر ‘فلتھی’ اور ‘ہاؤڈی! مودی’ ٹرینڈ کرنے لگا جو گزشتہ ہیوسٹن میں ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی مشترکہ ریلی کا حوالہ تھا۔
بھارتی اخبار دی پرنٹ کے ایڈیٹر انچیف شیکھر گپتا نے ٹوئٹر پر کہا کہ ‘ہماری فضا آلودہ ہے، ہر سال دنیا کی 20 آلودہ شہروں میں تقریباً 15 بھارت کے شہر ہوتے ہیں، اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے ہمارے اقدامات بھی بہت معمولی رہے ہیں’۔
انہوں نے کہا کہ ‘جب ٹرمپ سچ بول رہے ہوں تو غصہ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے، ہماری فضا عالمی سطح پر شرمندگی کا باعث ہے’۔
سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ رواں برس آلودگی سے دہلی کے 2 کروڑ شہریوں کی اکثریت کو کورونا وائرس کے خطرے سے دو چار کرے گی۔