امریکی کس کو ووٹ دیں؟ ٹیکس چھوٹ دینے والے نسل پرست کو یا ٹیکس لگانے والے لبرل کو؟
امریکا میں ان دنوں صدارتی دنگل اپنے عروج پر ہے۔ اس دنگل میں ریپبلکن پارٹی کے امیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار اور اوباما انتظامیہ میں نائب صدر رہنے والے جو بائیڈن موجود ہیں۔
بائیڈن اور ٹرمپ کی گفتگو کو سنا جائے تو ان دونوں میں بہت زیادہ تلخی نظر آتی ہے۔ پھر اس مرتبہ امریکی صدارتی انتخابات میں اسلاموفوبیا، دہشتگردی کے خلاف جنگ یا افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا جیسے معاملات کے بجائے تمام تر توجہ اور بحث امریکا کے مقامی مسائل پر مرکوز ہے۔
امریکی صدارتی انتخابات میں بحث کے اہم ترین موضوعات کورونا کی وبا پر قابو پانا، صحت کے شعبے کی زبوں حالی، معیشت کی بحالی اور ٹیکس اصلاحات ہیں۔
مزید پڑھیے: تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکا ’نازک دور سے گزر رہا ہے‘
صدر ٹرمپ سفید فام نسل پرستی کے قائل نظر آتے ہیں اور گزشتہ 4 سال کی پالیسیوں، اقدامات اور بیانات میں یہ جھلک صاف طور پر نظر بھی آتی ہے۔ اسی لیے ان کے مدمقابل جو بائیڈن نسل پرستی کو امریکا کے ہر شعبے سے باہر نکالنے کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں۔
پولیس کے ہاتھوں سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کے بہیمانہ قتل کے بعد امریکا میں ان دنوں نسل پرستی کے خلاف جذبات اپنی انتہا پر ہیں، جبکہ سفید فام نسل پرست بھی کھل کر سامنے آگئے ہیں۔ امریکا میں اگر ایک طرف سیاہ فام افراد جارج فلائیڈ اور دیگر کو انصاف دلوانے کے لیے مظاہرے کررہے ہیں تو دوسری طرف سفید فام امریکیوں کی مسلح ملیشیا ان کے دو بدو کھڑی نظر آتی ہے۔
نسل پرستی کے اسی ماحول کو ٹرمپ کے مدِمقابل صدارتی امیدوار جو بائیڈن نے اپنے حق میں استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ بائیڈن نے اپنے انتخابی منشور اور انتخابی مہم میں ایشیائی، لاطینی اور افریقی امریکیوں کو معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور سماجی حقوق اور مرتبہ دلوانے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
بائیڈن کے مطابق نسل پرستی کی وجہ سے ایشیائی، لاطینی اور افریقی نسل سے تعلق رکھنے والے امریکی شہری تعلیم، صحت، معیشت اور ملازمت جیسے شعبوں میں پیچھے رہ گئے ہیں۔ بائیڈن کے منشور کا ہر حرف اسی جانب اشارہ کرتا نظر آتا ہے۔
اس تحریر میں ہم امریکی صدارتی امیدواروں کے دعوؤں اور وعدوں کا تقابل کریں گے۔
کورونا کے بعد معیشت کی حالت زار
1871ء سے امریکا دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جب اقتدار سنبھالا تو امریکا اس وقت کساد بازاری سے ابھر رہا تھا اور امریکی معیشت ایک مرتبہ پھر ترقی کی جانب گامزن تھی۔ امریکی معیشت سالانہ 22 ہزار ارب ڈالر سے زائد کی پیداوار کرتی ہے۔
کورونا نے اس وقت دنیا کی معیشت کو اپنے چنگل میں جکڑا ہوا ہے اور امریکا میں بھی کورونا کی وجہ سے ناصرف اموات بہت زیادہ ہوئی ہیں بلکہ امریکی معیشت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے۔
کورونا کے لاک ڈاون کی وجہ سے امریکی معیشت کو شدید دھچکہ لگا اور سہ ماہی بنیادوں پر امریکی معیشت منفی 5 فیصد تک گرگئی تھی۔ مگر اب وائٹ ہاؤس کی ویب سائٹ کے مطابق آخری سہ ماہی کے دوران معاشی شرح نمو منفی سے مثبت ہوگئی ہے اور اس میں 4.2 فیصد کی شرح سے اضافہ ہورہا ہے۔ ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ لاک ڈاؤن کھلنے کے بعد سے کروڑوں امریکی دوبارہ ملازمت پر چلے گئے ہیں۔
جو بائیڈن معیشت میں بھی نسلی تفاوت کو نشانہ بناتے ہیں اور سفید فام بالادستی کی نفی کرتے نظر آتے ہیں۔ بائیڈن ایک ایسی معیشت پر یقین رکھتے ہیں جس میں ہر امریکی کو بغیر کسی نسلی تعصب کے اس کی محنت کا اجر اور ترقی کا موقع مل سکے۔ ایک ایسی معیشت جہاں سیاہ فام، لاطینی، ایشیائی امریکیوں کے ساتھ ساتھ پیسیفک جزائر پر رہنے والے اور مقامی امریکیوں کو بھی شراکت کے مساوی مواقع دستیاب ہوں۔
مزید پڑھیے: کیا آپ جانتے ہیں کہ امریکی انتخابات میں کتنے مراحل ہوتے ہیں؟
جو بائیڈن نے کورونا سے متاثر ہونے والے کاروبار میں بھی نسلی امتیاز کو اجاگر کیا ہے۔ ان کی انتخابی ویب سائٹ پر ایک رپورٹ کو لنک کیا گیا ہے جس میں رابرٹ ڈبلیو فیئر لائی نے چھوٹے کاروبار پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیا ہے اور کاروبار کی بندش کو نسلی بنیادوں پر بھی مرتب کیا ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے فروری سے اپریل کے درمیان 33 لاکھ کاروبار بندش کا شکار ہوئے جو مجموعی چھوٹے کاروبار کا 22 فیصد ہیں۔ کاروبار کی بندش سے افریقی امریکیوں کے کاروبار زیادہ متاثر ہوئے اور کاروباری سرگرمیوں میں 41 فیصد کمی دیکھی گئی۔ لاطینی امریکیوں کے کاروبار 32 فیصد اور ایشیائی امریکیوں کے کاروبار 26 فیصد متاثر ہوئے۔ ہجرت کرکے امریکا آنے والوں کے کاروبار کو بہت زیادہ نقصان ہوا اور ان کے 36 فیصد کاروبار بندش کا شکار ہوئے۔ خواتین کے کاروبار میں 25 فیصد بندش دیکھی گئی۔ مئی میں کاروباری سرگرمیوں میں 15 اور جون میں 8 فیصد کی کمی دیکھی گئی۔ جس سے مستقبل میں معاشی عدم مساوات پیدا ہوگی۔
بائیڈن کے مطابق کورونا کے بعد امریکی معیشت میں بہتری کے اشارے تو موجود ہیں مگر معیشت کے تمام شعبے مساوی رفتار سے ترقی نہیں کررہے ہیں۔ بعض شعبہ جات میں بہتری آئی ہے جبکہ بعض اب بھی گراوٹ کا شکار ہیں۔
ملازمت کے مواقع
ٹرمپ اپنے کارناموں میں اس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ ان کے دور میں امریکا میں بیروزگاری کی شرح 49 سال کی کم ترین سطح پر ہے۔ صدر بننے کے بعد سے اب تک امریکی معیشت میں ملازمت کے 40 لاکھ نئے مواقع پیدا ہوئے ہیں۔ امریکی تاریخ میں امریکیوں کی ریکارڈ تعداد برسرِ روزگار ہے۔ پیداواری شعبے میں 4 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہوئی ہیں۔ ایشیائی، لاطینی اور افریقی امریکیوں میں بھی بیروزگاری تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔
دوسری جانب بائیڈن تصویر کا دوسرا رخ پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق سیاہ فام امریکیوں میں بیروزگاری کی شرح 15.4 فیصد جبکہ لاطینی امریکیوں میں یہ شرح 14.5 فیصد ہوگئی ہے۔ اس کی بڑی وجہ کورونا کے دوران بڑے پیمانے پر افریقی اور لاطینی امریکیوں کے کاروبار کی بندش ہے۔ بائیڈن کا دعویٰ ہے کہ وہ صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد معیشت میں 70 لاکھ نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کریں گے۔
ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے بائیڈن کہتے ہیں کہ ٹرمپ کو اقتدار کی منتقلی سے پہلے جس قدر ملازمتیں پیدا ہوئیں ٹرمپ نے اس سے بہت کم ملازمتوں کے مواقع پیدا کیے ہیں۔
ٹیکس اصلاحات
ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے مدِمقابل جو بائیڈن ٹیکس کے حوالے سے الگ الگ سمت کے راہی نظر آتے ہیں۔ ٹرمپ ٹیکسوں میں کٹوتی کے حامی ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ 30 سالہ امریکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ٹیکسوں میں اضافے کے بجائے کمی کی ہے اور کورونا سے متاثر معیشت کو بحال کرنے کے لیے عوام کو 300 ارب ڈالر کے ٹیکس کی چھوٹ دی ہے۔ چھوٹے کاروبار پر عائد ٹیکس کی شرح 80 سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے۔
ٹیکس کی چھوٹ سے 82 فیصد متوسط طبقے کے خاندانوں کو فائدہ ہوا۔ بچوں پر والدین کو دیے جانے والے ٹیکس کریڈٹ کو دگنا کردیا گیا جس سے والدین کو فی بچہ ہزار ڈالر کی بچت ہوئی۔ اس کے علاوہ ٹیکس جمع کرانے کے فارمز کو بھی سہل بنایا گیا ہے اور چھوٹے کاروبار کو 20 فیصد تک رعایت دی گئی ہے۔
ٹیکسوں کے حوالے سے جو بائیڈن ٹرمپ کے برخلاف ٹیکسوں کی شرح میں کمی کے سخت مخالف ہیں۔ وہ کورونا میں دیے جانے والے ٹیکس ریلیف کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹرمپ نے 300 ارب ڈالر امیر لوگوں کی جیبوں میں ڈال دیے ہیں۔
مزید پڑھیے: ٹرمپ کورونا کا شکار ہوئے تو پوری دنیا نے خوشی کا اظہار کیوں کیا؟
اپنے انتخابی منشور میں ٹیکسوں کے حوالے سے بائیڈن کا کہنا ہے کہ کارپوریٹ ٹیکس کی شرح جو اس وقت 21 فیصد ہے اس کو بڑھا کر 28 فیصد تک لے جانا ہوگا۔ اس کے علاوہ اداروں اور انفرادی سطح پر وفاقی ٹیکس لگا کر آئندہ 10 سالوں میں حکومت 4 ہزار ارب ڈالر اضافی وصول کرے گی۔
اپنے ٹیکس اہداف کو درست قرار دیتے ہوئے بائیڈن کہتے ہیں کہ امریکی اسٹاک مارکیٹ میں درج فورچیون 500 کمپنیوں میں سے 91 کمپنیاں ایسی ہیں جو امریکا میں ایک ڈالر یا پینی بھی ٹیکس ادا نہیں کرتی ہیں اور وہ اس ٹیکس چوری کر روکنا چاہتے ہیں۔
ٹیکس چوری کے حوالے سے بائیڈن اپنے مدِمقابل پر ذاتی حملے بھی کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت کی ابتدا میں محض 750 ڈالر وفاقی ٹیکس ادا کیا۔ ٹرمپ نے اس کم ترین ٹیکس کا ذمہ دار بھی اوباما کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ اوباما کی ٹیکس پالیسی ٹھیک نہیں تھی۔
صحت کا شعبہ
کورونا کی وجہ سے امریکا میں صحت کے شعبے میں بحران پیدا ہوگیا ہے۔ امریکا میں 70 لاکھ افراد کورونا کا شکار ہوئے ہیں اور 2 لاکھ سے زائد افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ امریکا دنیا کی آبادی کا 4 فیصد ہے جبکہ امریکا میں کورونا کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتیں دنیا میں ہونے والی ہلاکتوں کا 20 فیصد ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ سابق صدر اوباما کی جانب سے متعارف کروائے گئے اوباما کیئر بل کو ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے صحت کے شعبے پر توجہ دی ہے اور ادویات کو سستا کردیا ہے۔ امریکا میں انسولین کو پانی جیسا سستا کردیا گیا ہے اور گورنروں کو اس بات کی اجازت دیدی ہے کہ وہ بیرونِ ملک سے ادویات خرید کر لاسکتے ہیں۔ جبکہ بائیڈن ووٹرز کو بتا رہے ہیں کہ اگر انہیں موقع ملا تو وہ اوباما کیئر کو آگے بڑھائیں گے۔
چین کے ساتھ تجارت
بائیڈن اور ٹرمپ دونوں اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ پیداواری شعبے کو دوبارہ امریکا میں واپس لایا جائے گا۔
صدر ٹرمپ تجارتی شعبے میں اپنے کارناموں میں میکسیکو سے تجارتی معاہدہ کرنے کے علاوہ کینیڈا سے مذاکرات کا ذکر کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یورپی یونین کے ساتھ معاہدے میں پیش رفت کا دعویٰ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کا مقصد امریکی برآمدات میں اضافہ ہے۔
ٹرمپ اسٹیل اور المونیم کی صنعت کو قومی سلامتی سے منسلک کرتے ہوئے غیر ملکی مصنوعات پر محصولات عائد کرنے کو اپنا کارنامہ گردانتے ہیں۔ اسی طرح چین پر تجارتی اور کاروباری الزامات عائد کرتے ہوئے چین پر محصولات عائد کرنا بھی اہم فیصلہ قرار دیتے ہیں۔
بائیڈن کا منصوبہ ہے کہ امریکا کی تعمیرِ نو کی جائے۔ اس تعمیرِ نو میں سرمائے کو امریکا میں واپس لانے کو امتیازی اہمیت حاصل ہوگی۔ بائیڈن امریکی وفاقی خریداری کو لازمی مقامی پیداوار سے منسلک کریں گے، جو 4 ہزار ارب ڈالر ہے۔
بائیڈن نے بنیادی ڈھانچے، جدت، مینوفیکچرنگ، تعلیم، رہائش، صاف توانائی، وفاقی خریداری اور چھوٹے کاروباروں میں جرأتمند سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ بائیڈن امریکی معیشت میں پیچھے رہ جانے والے نسلی گرہوں، ایشیائی، لاطینی اور افریقی امریکیوں کو ترقی کے عمل میں شامل کرنے کے پُرزور حامی ہیں اور ان کے انتخابی وعدوں میں یہ وعدہ متعدد مقامات پر نظر بھی آتا ہے۔ بائیڈن ایشیائی، لاطینی اور افریقی نسلی گروہوں میں تعلیم، صحت، ملازمت، کاروبار اور گھروں کی ملکیت کے کم ترین درجے میں بہتری کا بھی وعدہ کررہے ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی
ٹرمپ کے مقابلے میں بائیڈن ماحولیاتی تبدیلی کو حقیقی تصور کرتے ہیں۔ وہ اپنے انتخابی منشور میں ناصرف ماحول کو بہتر بنانے کے لیے منصوبے لگانے کا وعدہ کررہے ہیں بلکہ ساتھ ہی یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ہر منصوبے پر کتنے اخراجات آئیں گے۔
صنعتی آلودگی سے موسمی تغیر کے علاوہ بڑھتی ہوئی فضائی اور پانی کی آلودگی بائیڈن کے منشور کا حصہ ہے۔ موسمی تبدیلی کی وجہ سے آنے والے بڑے طوفان اور سخت موسمی حالات بھی سیاہ فام اور بھورے امریکیوں کو زیادہ متاثر کررہے ہیں۔
بائیڈن سال 2050ء تک امریکا میں 100 فیصد توانائی شفاف ذرائع سے حاصل کرنے کی حکمتِ عملی پیش کرتے ہیں جس میں امریکی حکومت کے دفاتر، عمارتوں اور تنصیبات پر زیادہ کارآمد اور ماحول دوست بجلی کی فراہمی اور سپلائی چین کو یقینی بنایا جائے گا۔
مزید پڑھیے: امریکی انتخابات میں ’اکتوبر سرپرائز‘ کا کھیل جانتے ہیں؟
ٹرانسپورٹ کے شعبے پر موجودہ کلین ایئر ایکٹ کا اطلاق کیا جائے گا جس سے گرین ہاؤس گیسز میں کمی آئے گی۔ گرین ہاؤس گیسز امریکا میں فضائی آلودگی کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ مستقبل میں خریدی جانے والی ہلکی اور درمیانے درجے کی گاڑیاں 100 فیصد بجلی سے چلنے والی ہوں گی۔ اس کے علاوہ بائیو ایندھن، تیل و گیس کی تلاش کے لائسنس کے بجائے جنگلوں میں توسیع اور پانی کی بچت بائیڈن کے منشور کا حصہ ہیں۔
دوسری جانب امریکی صدر اور آئندہ مدت کے لیے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ماحولیاتی آلودگی اور موسمی تغیر کو حقیقی تصور نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں کاربن اخراج کے قوانین کو نرم کیا تھا اور وہ امریکی کوئلے کی برآمدات کو بھی اپنے کارناموں میں شمار کرتے ہیں۔
امریکی صدارتی انتخابات میں امریکی عوام کے لیے فیصلہ مشکل ہوگا کہ آیا ایک نسل پرست ٹرمپ کو ووٹ دیں جس نے ٹیکسوں میں چھوٹ دی ہے یا پھر جو بائیڈن جیسے لبرل ذہنیت کے شخص کو امریکا کا صدر بنائیں جو ان پر اضافی ٹیکسوں کا بوجھ ڈالنے کا اعلان کررہا ہے۔
اس حوالے سے حتمی فیصلہ تو 3 نومبر کو ہونے والے رائے دہی کے آخری مرحلے میں ہوگا، مگر یہ بات طے ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات طویل عرصے بعد مقامی مسائل اور معیشت پر لڑے جارہے ہیں۔
راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔