پاکستان

سی سی پی انکوائری: شوگر ملز ایسوسی ایشن پر کارٹلائزیشن کا الزام

43 روپے اور 78 روپے فی کلو تک کی پیداواری لاگت والی ملز کے درمیان پی ایس ایم اے نے ایک غیرقانونی توازن برقرار رکھا ہوا ہے، رپورٹ

اسلام آباد: مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے چینی کے شعبے سے متعلق اپنی انکوائری رپورٹ کو حتمی شکل دے دی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پی ایس ایم اے) نے ناکارہ ملوں کے تحفظ اور چینی کی قیمتوں کو زیادہ رکھنے کے لیے اپنے اراکین کے درمیان کارٹیل (تجارتی اتحاد) برقرار رکھا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سی سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا کہ پی ایس ایم اے معیاری شوگر ملز جن کی پیداواری لاگت تقریبا 43 روپے فی کلو اور جن کی پیداواری لاگت 78 روپے فی کلو ہے، کے درمیان ایک غیرقانونی توازن برقرار رکھے ہوئے ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ توازن برقرار رکھنے کے لیے معیاری اور ان ناکارہ ملز کو فائدہ ہو رہا ہے جو سرکاری سبسڈی اور اعلیٰ شرح کی بنا پر کاروبار میں بدستور برقرار ہیں۔

دوسری جانب پی ایس ایم اے نے سی سی پی کی انکوائری رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تمام شوگر ملز کے کاروباری مفادات الگ الگ ہیں اور یہ تصور کرنا غیر معقول خیال ہے کہ تمام یونٹ ایک ہی نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوں گے۔

مزید پڑھیں: چینی کی برآمد، قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا، رپورٹ

سی سی پی کے مطابق، پی ایس ایم اے پنجاب زون کی تلاشی اور معائنہ سے انکشاف ہوا ہے کہ 25 ستمبر کو جے ڈی ڈبلیو شوگر ملز کا ایک سینئر عہدیدار رابطہ نیٹ ورک چلا رہا تھا۔

جے ڈی ڈبلیو گروپ کے ڈائریکٹر کے کمپیوٹر اور سمارٹ فون ضبط کرلیا گیا اور ان کا عدالتی تجزیہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی نے کیا تھا۔

گروپ کے ڈائریکٹر کے اسمارٹ فون میں واٹس ایپ گروپس میں سے ایک ’پی زیڈ‘ کارٹیلائزیشن، اجتماعی سرگرمیوں اور حتی کہ چینی کی فراہمی کو محدود رکھنے کے لیے مستقبل میں ہونے والی منصوبہ بندی سے متعلق تبادلہ خیال کی تفصیلات سامنے آئی جس کے نتیجے میں ملک میں اس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔

سی سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ سال فروری میں چینی کی قیمت 60 روپے فی کلو تھی جو رواں سال ستمبر میں بڑھ کر 98 روپے ہوگئی تھی جو 38 روپے فی کلو اضافہ ظاہر کرتی ہے۔

اس کے علاوہ چینی کی برآمد کی اجازت کے بعد ہی مختلف مراحل میں قیمت میں 18 روپے کا اضافہ دیکھا گیا۔

پی ایس ایم اے آفس سے حاصل کردہ ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے کہ پنجاب میں شوگر ملز کی جغرافیائی موجودگی کے بجائے پیداواری صلاحیت کی بنیاد پر 12 زون بنائے گئے تھے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ سپلائی کو محدود رکھنے کے لیے ہر زون سے ایک ممبر پر مشتمل سیل کمیٹیاں وقتا فوقتا ملاقات کرتی تھیں جبکہ پنجاب میں کل پیداوار کے حساب ہر زون کا حصہ ختم کردیا گیا۔

سی سی پی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’اس سے پتا چلتا ہے کہ فروخت میں ہم آہنگی ہر مہینے ہر زون کی ہر مل کی پیداوار اور اسٹاک کی پوزیشن پر مبنی تھی‘۔

سی سی پی کو ملنے والی دستاویزات میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ پی ایس ایم اے 2012 سے مارکیٹ میں سپلائی کو محدود کرنے کے لیے اسٹاک کی پیداوار اور حساس تجارتی معلومات کو شیئر کرنے کی نگرانی کر رہا ہے۔

انکوائری رپورٹ میں لگائے گئے الزامات کا جواب دینے کے لیے سی سی پی شوگر ملز اور پی ایس ایم اے کو شوکاز نوٹس جاری کرنا شروع کردے گی۔

پی ایس ایم اے کا نقطہ نظر

پی ایس ایم اے کے مرکزی چیئرمین اسکندر خان نے سی سی پی کی تحقیقات کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تمام شوگر ملز کے کاروباری مفادات الگ الگ ہیں اور یہ تصور کرنا غیر معقول خیال ہے کہ تمام اکائیاں ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہوجائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: ملز مالکان چینی 70 روپے کلو فروخت نہیں کررہے، حکومت کا عدالت میں اعتراض

ان کا کہنا تھا کہ ’ان حالات میں کارٹیل قائم کرنا ممکن نہیں ہے اور سی سی پی انکوائری کرتے ہوئے زمینی حقائق کو سمجھنے میں ناکام رہا ہے‘۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ پی ایس ایم اے نے حکومتی عہدیداروں کو اجناس کی صورتحال سے آگاہ کردیا تھا جیسے افغانستان میں چینی کی اعلیٰ قیمت اور گُڑ کی زیادہ مانگ جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر اسمگلنگ ہوتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ملک میں چینی کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے حکومت اور وزیر اعظم کے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں تاہم اہم رکاوٹ بیوروکریٹس کے غلط فیصلے ہیں۔

پی ایس ایم اے کے چیئرمین نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ سی سی پی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے عہدیداروں کی طرف سے کسی بھی تعصب یا غلط فیصلے کا نوٹس لینے میں بھی ناکام رہا ہے۔

کووڈ 19 سے شرح اموات پہلے کے مقابلے میں کم ہوگئی ہے، تحقیق

بچوں کے مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے کا آسان نسخہ

وزیراعظم ’غیر ضروری‘ وِد ہولڈنگ ٹیکس ختم کرنے کے خواہاں