یہ دونوں رپورٹس جلد طبی جریدے جرنل آف ہاسپٹل میڈیسین اینڈ کریٹیکل کیئر میڈیسین میں شائع ہوں گی۔
ایک تحقیق میں شامل نیویارک ہونیورسٹی کی ماہر لیورا ہوروٹز نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ کووڈ 19 سے اموات کی شرح میں نمایاں حد تک کمی آئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ مگر اس کے ساتھ ساتھ شرح اموات ابھی بھی متعدد وبائی امراض بشمول فلو سے کافی زیادہ ہے، جبکہ کووڈ 19 سے طویل المعیاد بنیادوں پر بہت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
لیورا ہوروٹز اور ان کے ساتھیوں نے مارچ سے اگست تک نیویارک یونیورسٹی لانگون ہیلتھ میں زیرعلاج کرنے والے 5 ہزار افراد کی شرح اموات کا تجزیہ کیا۔
انہوں نے دریافت کیا کہ وقت کے ساتھ اموات کی شرح میں 18 فیصد تک کمی آگئی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ وبا کے آغاز میں مریضوں کی موت کا امکان 25 فیصد سے زیادہ تھا جو اب گھٹ کر 7 فیصد ہوگیا ہے۔
تحقیقی ٹیم نے مختلف عناصر جیسے عمر اور دیگر بیماریوں کو مدنظر رکھ کر دریاافت کیا کہ اموات کی شرح ہر عمر کے گروپ میں کم ہوئی ہے۔
اس تحقیق کے ابتدائی نتائج پری پرنٹ اگست میں جاری ہوئے تھے اور اب یہ آئندہ ماہ طبی جریدے کا حصۃ بن رہے ہیں۔
دوسری تحقیق برطانیہ میں ہوئی اور اس میں بھی شرح اموات میں کمی دیکھی گئی۔
اس تحقیق میں مارچ سے جون تک ہسپتال میں زیرعلاج رہنے والے 21 ہزار افراد میں اموات کی شرح کا تجزیہ کیا گیا جس میں بتدریج کمی آئی۔
اس دورانیے کے دورانیے کے دوران اموات کی شرح میں 20 فیصد کمی آئی اور یہ کمی ہر عمر کے گروپس اور مختلف بیماریوں کے شکار افراد میں دیکھنے مین آئی۔
اس تحقیق کے ابتدائی نتائج بھی اگست میں شائع ہوئے اور اب یہ جلد طبی جریدے کا حصہ بن رہے ہیں۔
اس تحقیق میں شامل محقق بلال متین نے بتایا کہ یہ واضح ہے کہ مریضوں میں موت کے خطرے کے حوالے سے کچھ ہوا ہے جس سے صورتحال بہتر ہوئی ہے۔
اس سے قبل بھی طبی ماہرین نے نوٹس کیا تھا کہ کووڈ 19 کی سنگین شدت سے متاثر ہونے والے مریضوں کے طریقہ علاج میں بہتری آئی ہے جس سے بلڈ کلاٹس اور مدافعتی نظام کے مسائل سے دوچار افراد کو مدد ملی ہے۔
دونوں تحقیقی رپورٹس کے محققین نے بتایا کہ کووڈ 19 سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر جیسے سماجی دوری اور فیس ماسک کے استعمال سے بھی وائرس کی زد میں آنے والے افراد میں وائرل لوڈ کم ہوا ہے، جس سے بیماری کی شدت گھٹ گئی۔
اب محققین اور طبی حکام موسم سرما کے دوران کووڈ 19 کے کیسزاور اموات کی شرح کا جائزہ لیں گے تاکہ شرح اموات کا تععین کیا جاسکے۔
لیورا ہوروٹز نے کہا 'میرے خیال میں یہ اچھی خبر ہے، مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کورونا وائرس ایک عام بیماری کی شکل اختیار کرچکا ہے'۔
رواں ماہ امریکا کی وائنی اسٹیٹ یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ڈیٹوریٹ میڈیکل سینٹر میں زیرعلاج رہنے والے مریضوں میں وبا کے آگے بڑھنے کے ساتھ اوسط وائرل لوڈ کی مقدار میں کمی آئی ہے، جبکہ اس کے ساتھ ساتھ کووڈ 19 کی شدت معتدل ہوتی گئی۔
تحقیق میں شامل ڈاکٹر پرانھتارتی چندر شیکھر نے بتایا 'وبا کے آغاز میں لوگ زیادہ وائرل لوڈ کے ساتھ آرہے تھے، زیادہ افراد کو ہسپتال میں داخل کیا جارہا تھا، بہت زیادہ لوگ مررہے تھے، مگر وبا کے آگے بڑھنے کے ساتھ اموات، ہسپتال میں داخلے کی تعداد کم ہوگئی جبکہ مریضوں میں وائرل لوڈ کی مقدار کم ہوگئی ہے۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ اس بات کی نشانی ہے کہ احتیاطی تدابیر جیسے فیس ماسک یا سماجی دوری سے پہلی بار متاثر ہونے والے لوگوں میں وائرس کی مقدار میں کمی آرہی ہے۔
اس سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ کم وائرل لوڈ کے نتیجے میں اموات کی شرح میں کمی آرہی ہے۔
تاہم محققین کا کہنا تھا کہ کسی حتمی نتیجے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
کسی مریض میں وائرل لوڈ اور اس کے اثرات پر تحقیق بہت مشکل ہے کیونکہ محققین کی جانب سے لوگوں کو جان بوجھ کر وائرس سے متاثر نہیں کیا جاسکتا، تو ماہرین نے پہلے سے بیمارا افراد کے معائنے پر انحصار کیا۔
اس مقصد کے لیے محققین نے اپریل کے شروع سے جون کے شروع میں ہسپتال میں داخل ہونے والے مریضوں کے ناک اور حلق کے سواب سے وائرل لوڈ کے نمونے لیے۔
700 سے زائد نمونوں میں محققین نے دریافت کیا گیا کہ وقت کے ساتھ مریضوں کے اوسط وائرل لوڈ میں کمی آتی گئی۔
تحقیق کے پہلے ہفتے لگ بھگ 50 فیصد نمونوں میں بہت وائرل لوڈ کی شرح نہ تو بہت زیادہ تھی اور نہ بہت کم، جبکہ 25 فیصد نمونوں میں بہت زیادہ وائرل لوڈ دریافت کیا گیا جبکہ باقی میں یہ شرح کم تھی۔
مگر جب تحقیق 5 ویں ہفتے میں داخل ہوئی تو نمونوں کی اکثریت یا 70 فیصد میں وائرل لوڈ کی شرح کم رہی۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ بہت زیادہ وائرل لوڈ والے مریضوں کو سنگین نتائج کا سامنا ہوا۔