طبی جریدے سائنٹیفک رپورٹس میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایک مخصوص نباتاتی جز فلیونول سے بھرپور غذائیں بلڈ پریشر کو کم رکھنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتی ہیں۔
برطانیہ کی ریڈنگ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں 25 ہزار سے زائد افراد کی غذائی عادات کا جائزہ لیا گیا جبکہ یہ بھی جانچا گیا کہ ان کی خوراک میں فلیونولز کی مقدار کتنی ہوتی ہے اور پھر اس کا موازنہ بلڈ پریشر کے نمبروں سے کیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ فلیونولز کی زیادہ مقدار کا استعمال کرنے والوں کے بلڈ پریشر میں نمایاں کمی (2 سے 4 ایم ایم ایچ جی) آگئی۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ خاص طور پر ان افراد کے لیے زیادہ فائدہ مند ہے جو تحقیق کے آغاز پر ہائی بلڈ پریشر کے شکار ہیں۔
یہ کمی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے مخصوص غذاؤں جتنی ہی تھی۔
ان میں ڈیش ڈائیٹ (ڈائیٹری اپروچز ٹو اسٹاپ ہائپرٹینشن) بھی شامل ہے جس میں نمک کا کم استعمال جبکہ اجناس، گریاں اور پھلوں کا زیادہ استعمال ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق فلیونولز سے بھرپور غذاؤں سے خون کی شریانوں سے جڑے امراض یا موت کے خطرے میں نمایاں فرق نہیں آتا تاہم محققین کا کہنا تھا کہ اس کے متعدد پیچیدہ عناصر ہیں، مگر پھر بھی یہ دل کی صحت کے لیے مفید ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے خطرہ کچھ حد تک کم ہوتا ہے مگر وہ اتنا کم نہیں ہوتا جو ہمارے ٹولز شناخت کرسکے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ زیادہ فلیونولز والی غذاؤں میں چائے، سیب اور بیریز قابل ذکر ہیں۔
اس کے مقابلے میں کافی میں فلیونولز کی سطح کم ہوتی ہے اور اس کی جگہ دیگر اینٹی آکسائیڈنٹس بشمول دوسرے فلیونوئڈز موجود ہوتے ہیں۔
خیال رہے کہ رواں ہفتے ہی ڈاؤ میڈیکل کالج میں ایک تقریب کے دوران ماہرین نے بتایا تھا کہ پاکستان میں ہائی بلڈ پریشر کا مسئلہ عام ہوچکا ہے اور مریض عموماً اس وقت ہسپتالوں کا رخ کرتے ہیں جب انہیں یہ بیماری ہوچکی ہوتی ہے۔
شعبہ امراض قلب کے سربراہ پروفیسر نواز لاشاری نے کہا کہ یہ بلڈ پریشر کی پیمائش کرنے اور اسے کنٹرول کرنے سے متعلق ہے جس سے لوگوں کو طویل صحت مند زندگی گزارنے میں مدد ملتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ادویات کے بغیر بھی خطرات کو کم کیا جاسکتا ہے جس میں نمک اور چینی کا کم استعمال، متوازن غذا، روزانہ ورزش اور کم تناؤ والی زندگی شامل ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلند فشار خون ایک خاموش قاتل ہے جو جسم کے متعدد اعضا بشمول گردوں اور آنکھوں کو بری طرح نقصان پہنچا سکتا ہے۔