پاکستان

ملک میں غیراعلانیہ مارشل لا نافذ ہے، مولانا فضل الرحمٰن

یہ جدوجہد ملک میں آئینی اور جمہوری حکمرانی کے لیے ہو رہی ہے، سربراہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کی نوابشاہ میں میڈیا سے گفتگو

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے قائد مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ ملک میں غیراعلانیہ مارشل لا نافذ ہے اور موجودہ حکمرانی آئینی نہیں ہے لہٰذا یہ جدوجہد ملک میں آئینی اور جمہوری حکمرانی کے لیے ہو رہی ہے۔

نوابشاہ میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آج پی ڈی ایم کے پلیٹ فرم سے تمام سیاسی جماعتوں نے مشترکہ ایونٹ کے تحت پہلا جلسہ گوجرانوالہ میں کیا، دوسرا کراچی میں کیا اور اس میں عوام کی شرکت بڑی تاریخی تھی اور عوام کی اس رائے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

مزید پڑھیں: آمدن سے زائد اثاثے: نیب نے مولانا فضل الرحمٰن کو طلب کرلیا

انہوں نے کہا کہ عوام کا ماننا ہے کہ ان کا ووٹ چوری کیا گیا، ان کی امانت پر ڈاکا ڈالا گیا اور آج جدوجہد ملک میں آئینی اور جمہوری حکمرانی کے لیے ہو رہی ہے کیونکہ موجودہ حکمرانی آئینی نہیں ہے، ایک ایسی حکمرانی کے لیے یہ جدوجہد ہو رہی ہے جس میں عوام کی شراکت کا تصور ہو اور عوام پر مسلط کیے جانے کی حکمرانی کا تصور ختم کردیا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے ہماری تحریک اور تحریک کے بنیادی مقاصد وہ پوری قوم پر واضح کر رہے ہیں، یہاں سے ہم کوئٹہ جائیں گے، وہاں بھی یہی مناظر ہوں گے اور اس کے بعد ملک کے دیگر حصوں میں بھی جائیں گے۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ نے کہا کہ یہ پاکستان اور پاکستان کے عوام کی بقا کی جنگ ہے، اس میں تمام طبقے شریک ہیں، دو سال کے دوران تاجر، چھابڑی والے، روزانہ مزدوری کمانے والے، ڈاکٹرز، اساتذہ، وکلا سمیت پر طبقہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنا چیخ و پکار دنیا کو سنائی لیکن طاقت کے نشے نے جن کو مدہوش کیا ہوا ہے اور جن کے کان بہرے ہو گئے ہیں، ان کو شاید عوام کی یہ چیخ و پکار سنائی نہیں دے رہی۔

انہوں نے کہا کہ اس کے لیے ایک بھرپور جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے اور اس جدوجہد کے نتیجے میں پاکستانی قوم کو نتائج مہیا ہو سکیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: 'اے پی سی کے لیے مولانا فضل الرحمٰن رینٹ اے کراؤڈ کا کام کر رہے ہیں'

ملک میں ایمرجنسی کے نافذ کے حوالے سے سوال پر مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم تو پہلے ہی ایمرجنسی کے تحت زندگی گزار رہے ہیں، غیراعلانیہ مارشل لا ہے اور آپ نے دیکھا کہ کس طرح کراچی میں پولیس کے آئی جی، ایڈیشنل آئی جی کو کس طرح یرغمال بنا کر ایف آئی آر درج کرائی گئی، کیپٹن صفدر پر جس طرح ریڈ کیا گیا اور ان کی اہلیہ ان کے ساتھ تھیں، ان کے کمرے میں یہ لوگ جس طرح گھسے ہیں، اس کا ذمے دار کون ہے اس پر سندھ پولیس کا جو ردعمل آیا ہے وہ اس بات کی گواہی دے رہا ہے کہ یہ ذمے داری کس پر ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایپکس کمیٹی میں یہ سب بیٹھے ہوتے ہیں، بظاہر تو یہ ہے کہ ہم ملکی دفاع، ملک کی بہتری اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اکٹھے ہیں لیکن تمام چھوٹے چھوٹے انفرادی معاملات میں بھی ان کی حیثیت بالاتر کی ہوتی ہے، وہ کسی کو جوابدہ نہیں ہیں، ساری انتظامیہ صرف انہی کو جوابدہ ہے اور یہی مارشل لا کی علامتیں ہوتی ہیں، یہی ایمرجنسی کی علامات ہوتی ہیں، ہم غیراعلانیہ مارشل لا یا ایمرجنسی سے تو ہم پہلے ہی گزر رہے ہیں لہٰذا اگر یہ چیزیں ہو بھی جاتی ہیں تو ہمیں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

مزید پڑھیں: اب عمران خان این آر او چاہ رہے ہیں مگر ہم نہیں دے رہے، مولانا فضل الرحمٰن

ان کا کہنا تھا کہ ہمارا مطالبہ ہے کہ چاروں صوبوں میں فوجی انتظامیہ کی سول افسران پر اس طرح کی بالادستی اور معاملات پر گرفت کو ختم ہو جانا چاہیے تاکہ ہماری سول انتظامیہ آزادی کے ساتھ اپنے فرائض سرانجام دے سکے۔

مولانا نے واضح کیا کہ یہ اتحاد صرف اس ملک میں دوبارہ انتخابات کرانے اور آئینی حکومت کے قیام کے لیے آزادانہ انتخابات تک محدود ہے، پہلے بھی اتحاد ہوتے رہے ہیں لیکن انتخاب ہر پارٹی نے اپنے طور پر لڑا ہے البتہ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات ہو سکتی ہے جبکہ ہم خیال جماعتیں ایک دوسرے سے اتحاد بھی کر سکتی ہیں۔

مسلسل آخری نمبروں پر رہنے والی سدرن پنجاب فائنل تک کیسے پہنچی؟

عائشہ خان نے آخر کار بیٹی کی پہلی جھلک دکھادی

شادی کی 20ویں سالگرہ پر شاہد آفریدی کا اہلیہ کے لیے پیغام