عام طور پر کسی ویکسین ٹرائل میں رضاکاروں کو ایک تجرباتی ویکسین دی جاتی ہے اور پھر کئی ماہ تک ان کی مانیٹرنگ کی جاتی ہے کہ وہ قدرتی طریقے سے وائرس سے متاثر ہوتے ہیں یا نہیں۔
مگر سائنسدانوں کا خیال ہے کہ کسی ٹرائل میں نئے کورونا وائرس سے متاثر کرکے شامل کرنے سے کئی سال نہیں تو کم از کم کئی ماہ بچائے جاسکتے ہیں۔
مگر اس طرح کے ٹرائلز خطرناک ہوسکتے ہیں کیونکہ معاملہ بگڑ گیا تو کووڈ 19 کا ابھی کوئی علاج موجود نہیں۔
مگر اس طرح کے ٹرائلز نئے نہیں بلکہ ان کو بیماریوں جیسے ملیریا اور زرد بخار کے بارے میں مزید جاننے کے اہم ٹول کے طور پر استعمال کیا گیا۔
اس نئی چیلنج تحقیق کی قیادت امپرئیل کالج لندن کے سائنسدان کریں گے جس کے لیے برطانوی حکومت کی جانب سے 4 کروڑ 34 لاکھ ڈالرز فراہم کیے جائیں گے۔
اس تحقیق کے دوران ماہرین کی جانب سے 18 سے 30 سال کی عمر کے ایسے صحت مند رضاکاروں کی خدمات حاصل کی جائیں گی جو اب تک کووڈ 19 سے محفوظ ہیں اور پہلے سے کسی بیماری یا کووڈ 19 کا خطرہ بڑھانے والے عناصر جیسے امراض قلب، ذیابیطس یا موٹاپے کا شکار نہ ہوں۔
حکام کی جانب سے تحقیق کی منظوری دی گئی تو اس کا آغاز جنوری 2021 میں رائل فری ہاسپٹل سے ہوگا جہاں رضاکاروں کو قرنطینہ میں رکھ کر لیبارٹری میں تیار کردہ نئے کورونا وائرس سے متاثر کیا جائے گا۔
تحقیق کے پہلے مرحلے میں محققین کی جانب سے وائرس کی کم از کم مقدار کسی رضاکار کے جسم میں داخل کی جائے گی تاکہ اس میں کووڈ 19 کا مرض بن سکے۔