صحت

چین کی تجرباتی کورونا ویکسین تیسرے مرحلے میں محفوظ قرار

سینویک دنیا کی پہلی کمپنی ہے جس نے آخری مرحلے کے نتائج جاری کیے اور اس طرح چین کو دنیا کے دیگر ممالک پر سبقت حاصل ہوچکی ہے۔

چین میں کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے تیار ہونے والی ایک تجرباتی ویکسین انسانی آزمائش کے آخری مرحلے میں محفوظ نظر آئی ہے۔

یہ بات چینی کمپنی سینویک بائیوٹیک کی اس تجرباتی ویکسین کے برازیل میں آخری مرحلے کے کلینیکل ٹرائل کے ابتدائی نتائج میں سامنے آئی۔

سینویک دنیا کی پہلی کمپنی ہے جس نے آخری مرحلے کے ٹرائل کے نتائج جاری کیے ہیں اور اس طرح کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے ویکسین کی تیاری میں چین کو دنیا کے دیگر ممالک پر سبقت حاصل ہوچکی ہے۔

کورونا ویک نامی اس ویکسین کے انسانی ٹرائل کے آخری مرحلے کے ابتدائی نتائج برازیل کے بوتانتین انسٹیٹوٹ نے جاری کیے۔

یہ انسٹیٹوٹ برازیل میں اس ویکسین کے انسانی آزمائش کے تیسرے مرحلے کے ٹیسٹوں پر کام کررہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ 9 ہزار رضاکاروں میں اس تجرباتی ویکسین کے 2 ڈوز کا استعمال محفوظ ثابت ہوا ہے۔

مگر برازیلین محققین کا کہنا تھا کہ نئے کورونا وائرس کے حوالے سے یہ ویکسین لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے میں کتنی موثر ہے، اس کا ڈیٹا اس وقت تک جاری نہیں کیا جائے گا، جب تک اس کا تجربہ توسیعی ٹرائلز کے تمام 15 ہزار رضاکاروں پر نہیں کرلیا جاتا۔

برازیل کی ریاست سائوپاؤلو کے اسٹیٹ ہیلتھ سیکرٹری جین گورنچیتیان نے بتایا کہ ویکسین سے بظاہر تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز بنتی ہیں اور توقع ہے کہ رواں سال کے آخر تک اس کی ریگولیٹری منظوری دے دی جائے گی اور 2021 کے شروع میں لوگوں کے لیے اس کا استعمال شروع ہوجائے گا۔

چین میں کورونا وائرس کے کیسز کی تعداد نہ ہونے کے برابر رہنے کے باعث سینویک کی جانب سے برازیل میں اس تجرباتی ویکسین کے تیسرے مرحلے کا ٹرائل کیا جارہا ہے جو کوکرونا وائرس سے متاثرہ چند بڑے ممالک میں سے ایک ہے۔

سینویک کی جانب سے بیجنگ میں ایک نیا پلانٹ بھی تعمیر کیا جارہا ہے جو سالانہ وائرس کی 30 کروڑ ڈوز تیار کرسکے گا۔

چین میں سینویک کی اس تجرباتی ویکسین کو اہم ورکرز اور زیادہ خطرے سے دوچار گروپس کو قومی پروگرام کے تحت فی ڈوز 200 چینی یوآن (4851 پاکستانی روپے) میں فراہم کیا جارہا ہے اور ہر فرد کو 2 ڈوز دی جائیں گی یعنی 400 یوآن (9 ہزار 700 پاکستانی روپے سے زائد)۔

یہ پہلی چینی ویکسین ہے جس کی قیمت کو جاری کیا گیا ہے، جبکہ اس ویکسین کے آخری مرحلے کا ٹرائل برازیل کے ساتھ ساتھ انڈونیشیا اور ترکی میں بھی جاری ہے۔

آکسفورڈ یونیورسٹی کی ویکسین کے آخری مرحلے کا ٹرائل بھی اختتام کے قریب ہے، تاہم اس کے نتائج کب تک جاری ہوں گے، ابھی یہ واضح نہیں۔

اسی طرح امریکی کمپنی فیزر نے بتایا کہ اس کے ٹرائل کے ابتدائی نتائج رواں ماہ جاری کیے جاسکتے ہیں جبکہ ایک اور امریکی کمپنی موڈرینا کے ویکسین کے آخری ٹرائل کے نتائج نومبر میں جاری کیے جانے کا امکان ہے۔

فیزر اور موڈرینا نے آخری مرحلے میں شامل لگ بھگ تمام رضاکاروں کی خدمات حاصل کرلی ہیں۔

فیزر نے اب تک 40 ہزار میں سے 38 ہزار کو ویکسین کے ٹرائل کا حصہ بننے کے لیے تیار کرلیا ہے جبکہ موڈرینا کے ٹرائل میں 30 ہزار رضاکاروں کو شامل کیا جانا تھا اور اس تعداد میں اب چند سو ہی باقی بچے ہیں۔

روس کے گمالیا انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے بھی اس کی کورونا ویکسین کے نتائج اگلے ماہ جاری کیے جاسکتے ہیں۔

جون میں سینویک بائیو ٹیک لمیٹڈ نے اپنی ویکسین کے انسانی آزمائش کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے نتائج جاری کی تھے۔

اس موقع پر بیجنگ سے تعلق رکھنے والی کمپنی کی جانب سے جاری بیان کے مطابق انسانی ٹرائل اس ویکسین جسے کورونا ویک کا نام دیا گیا ہے، سے سنگین مضر اثرات مرتب نہیں اور جن افراد کو اس کا استعمال کرایا گیا، ان میں 2 ہفتے بعد وائرس کے خلاف مضبوط مدافعتی ردعمل پیدا ہوا جن میں ایسی اینٹی باڈیز بھی شامل تھیں جو وائرس کو ناکارہ بنانے کے لیے ضروری ہیں۔

کمپنی کی جانب سے ان مراحل میں 18 سے 59 سال کی عمر کے 743 صحت مند افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

پہلے مرحلے میں 143 جبکہ دوسرے مرحلے میں 600 افراد کو شامل کیا گیا تھا۔

ان افراد کو 2 شیڈولز میں ویکسین کے ڈوز یا ایک پلیسیبو (ایک بے ضرر مادہ جو دوائی کے طور پر دیا جاتا ہے) کا استعمال کرایا گیا۔

جن افراد کو ویکسین کا استعمال کرایا گیا ان میں 14 دن بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح 90 فیصد سے زیادہ تھی جبکہ کسی قسم کے شدید مضر اثرات بھی دیکھنے میں نہیں آئے۔

اس ویکسین میں کورونا وائرس کی ایک قسم کو استعمال کیا گیا ہے اور چین کی ان 5 تجرباتی ویکسینز میں سے ایک ہے جو انسانی آزمائش کے آخری مراحل میں داخل ہوچکی ہے، جس کے بعد عام استعمال کی منظوری دی جائے گی۔

چین کی جانب سے ستمبر میں اعلان کیا گیا تھا کہ اب تک لاکھوں شہریوں کو 2 تجرباتی ویکسینزز کا استعمال کرایا گیا ہے جو اس وقت کلینیکل ٹرائلز کے تیسرے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔

سی این بی جی کے سیکرٹری زاؤ سونگ نے چائنا نیشنل ریڈیو کو بتایا کہ ویکسین استعمال کرنے والے کسی بھی فرد میں کوئی مضر اثر نظر نہیں آیا اور نہ ہی کوئی کووڈ سے متاثر ہوا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ویکسین سے ایک فرد کو ممکنہ طور پر 3 سال تک کورونا وائرس سے تحفظ مل سکے گا۔

ان کا کہنا تھا 'جانوروں پر ہونے والے تجربات کے نتائج اور دیگر تحقیقی نتائج سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ ویکسین سے ملنے والا تحفظ ایک سے 3 سال تک برقرار رہ سکتا ہے'۔

واضح رہے کہ اگست میں چین نے کہا تھا کہ کووڈ 19 کی روک تھام کے لیے ویکسینز کی منظوری اسی صورت میں دی جائے گی جب ان کی افادیت کی شرح کم از کم 50 فیصد اور کورونا وائرس کے خلاف قوت مدافعت 6 ماہ تک برقرار رکھ سکے گی۔

چین کے سینٹر فار ڈرگ ایولوشن (سی سی ڈی ای) کا تجویز کردہ مسودہ سامنے آیا ہے جس میں کورونا ویکسین کے حوالے سے ضوابط دیئے گئے ہیں۔

مسودے کے مطابق ویکسینز کے ہنگامی استعمال کے لیے کم از کم افادیت کی شرح رکھی گئی ہے اور ان میں ایسی ویکسین بھی شامل ہوگی جس کا کلینیکل ٹرائل مکمل نہ ہوا ہو مگر افادیت کو دیکھتے ہوئے اس کے استعمال کی منظوری دے دی جائے گی۔

ویکسین کی افادیت کے حوالے سے چینی گائیڈلائنز میں عالمی ادارہ صحت اور یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ہدایات کو مدنظر رکھا گیا ہے۔

کووڈ 19 سے صحتیابی کے بعد بھی اکثر مریضوں کو مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے، تحقیق

14 سالہ طالبہ نے کووڈ کا ممکنہ علاج دریافت کرلیا

کورونا وائرس میں خاموش تبدیلیوں نے اسے اتنا خطرناک بنایا، تحقیق