آکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرس سے پہلی بار متاثر ہونے کے 2 سے 3 ماہ بعد بھی بظاہر صحتیاب قرار دیئے جانے والے مریضوں کی اکثریت کو مختلف اقسام کی علامات کا تجربہ ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران محققین نے متعدد مریضوں کے ایم آر آئی ٹیسٹوں میں متعدد اعضا کے افعال میں خرابیوں کو بھی دریافت کیا گیا اور ان کا ماننا ہے کہ ورم کا تسلسل یا دائمی ورم ممکنہ طور پر وہ عنصر ہے جو کووڈ 19 کے مریضوں میں طویل المعیاد اثرات کا باعث بنتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ آن لائن پری پرنٹ سرور MedRxiv پر جاری کیے گئے۔
اس تحقیق میں آکسفورڈ یونیورسٹی کے ریڈکلف ڈیپارٹمنٹ آف میڈیسین، آکسفورڈ بائیومیڈیکل ریسرچ سینٹر اور این آئی ایچ آر آکسفورڈ ہیلتھ بی آر سی کے ماہرین شامل تھے۔
تحقیق کے دوران 58 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں ابتدا میں سے کووڈ 19 کی معتدل سے سنگین شدت کی تشخیص ہوئی تھی اور ان کا علاج آکسفورڈ یونیورسٹی ہاسپٹلز میں مارچ سے مئی 2020 کے دوران ہوا تھا۔
اس کے علاوہ 30 ایسے افراد کو بھی تحقیق کا حصہ بنایا گیا جو کووڈ 19 سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔
ان سب افراد کے دماغ، پھیپھڑوں، دل، جگر اور گردوں کے ایم آر آئی ٹیسٹ ہوئے جبکہ پھیپھڑوں کے افعال کی جانچ پڑتال کے لیے 6 منٹ کی چہل قدمی کا ٹیسٹ ہوا اور معیار زندگی، دماغی افعال اور صحت کے مختلف ٹیسٹ بھی ہوئے۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ ہسپتال سے فارغ ہونے کے 2 سے 3 ماہ بعد بھی 64 فیصد مریضوں کو سانس لینے میں مشکلات اور 55 فیصد کو شدید تھکاوٹ کا تجربہ ہورہا تھا۔
ایم آر آئی ٹیسٹوں میں پھیپھڑوں کے ٹشوز کے سگنل میں خرابیوں کی شرح کووڈ 19 کے مریضوں میں 60 فیصد، گردوں میں 29 فیصد، دل میں 26 فیصد اور جگر میں 10 فیصد تھی۔
اعضا میں یہ خرابیاں ایسے مریضوں میں دریافت ہوئیں جن میں ابتدا میں اس مرض کی شدت زیادہ سنگین نہیں تھی۔
ایم آر آئی میں مریضوں کے دماغ کے حصوں کے ٹشوز میں تبدیلیوں کو بھی دیکھا گیا جبکہ ان افراد کی دماغی کارکردگی بھی متاثر ہوئی۔