انہیں یہ اعزاز کووڈ 19 کے ایک امکانی علاج کی دریافت پر دیا گیا۔
انہیں یہ کامیابی ایک ایسے مالیکیول کی دریافت پر ملی جو نئے کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین کو جکڑ لیتا ہے۔
اس طالبہ نے سی این این کو بتایا 'گزشتہ 2 دنوں کے دوران میں نے اپنے پراجیکٹ کے حوالے سے بہت زیادہ میڈیا کوریج دیکھی جو کہ کورونا وائرس کے گرد گھومتا ہے اور اس وبا کے اختتام کے لیے ہماری امید کی عکاسی کرتا ہے، ہر ایک کی طرح میں بھی چاہتی ہوں کہ معمول کی زندگی جلدازجلد لوٹ آئے'۔
انیکا نے اپنا پراجیکٹ اس وقت جمع کرایا تھا جب وہ 8 ویں جماعت میں بھی تھی مگر اس وقت طالبہ کا مقصد کووڈ 19 کا علاج دریافت کرنا نہیں تھا۔
ابتدا میں وہ اس طریقہ کار سے ایک ایسے مرکب کی شناخت کرنا چاہتی تھی جو انفلوائنزا وائرس کو جکڑنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔
طالبہ نے بتایا 'وبائی امراض، وائرسز اور ادویات کی دریاافت پر بہت زیادہ وقت تحقیق کرنے کے بعد یہ سوچنا حیران کن لگتا تھا کہ میں حقیقت میں ایسی ہی صورتحال میں رہ رہی ہوں'۔
انیکا نے کہا 'بہت مختصر وقت میں کووڈ 19 کی وبا کے پھیلاؤ اور دنیا پر اس کے اثرات کو دیکھتے ہوئے، میں نے اپنے بڑوں کی مدد سے انفلوائنزا کی بجائے سارس کوو 2 وائرس کو ہدف بنایا'۔
طالبہ کا کہنا تھا کہ 1918 کی فلو وبا کے حوالے سے وائرسز کے امکانی علاج کی دریافت نے انہیں متاثر کیا اور انہیں معلوم ہوا کہ صرف امریکا میں ہی ہر سال متعدد افراد فلو سے ہلاک ہوجاتے ہیں حالانکہ اس کے خلاف ہر سال ویکسینیشن ہوتی ہے اور ادویات بھی عام دستیاب ہیں۔
3 ایم ینگ سائنٹیسٹ چیلنج کی ایک جج ڈاکٹر سینڈی موس نے بتایا 'انیکا نے اپنے تجسس اور ذہن کو استعمال کیا اور اس کا کام منظم تھا جس میں بہت زیادہ ڈیٹابیس کا تجزیہ کیا گیا، یہ طالبہ اپنا وقت اور صلاحیت دنیا کو بہتر مقام بنانے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے تاکہ ہم سب کو امید حاصل ہوسکے'۔
انیکا کا کہنا ہے کہ انعام کو جیتنا اور ٹاپ ینگ سائنسدان کا خطاب ایک اعزاز ہے مگر اس کا کام ابھی ختم نہیں ہوا۔
طالبہ کے مطابق اس کا اگلا مقصد سائنسدانوں اور محققین کے ساتھ مل کر اپنے دریافت کردہ طریقہ کار کو ایک حقیقی علاج کی شکل دے کر وبا کے پھیلاؤ اور اموات کو کنٹرول کرنا ہے۔