ان تبدیلیوں کی بدولت ہی وائرس اپنے آر این اے مالیکیولز کے ذریعے انسانی خلیات کو دھوکا دے دیتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔
ڈیوک یونیورسٹی کی تحقیق میں ان طریقوں کو استعمال کیا گیا، جس سے اب تک انسانوں میں نئے کورونا وائرس کے جینوم میں آنے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا گیا، مگر چمگادڑوں اور پینگولینز میں اس سے جڑے کورونا وائرسز پر اب تک کوئی کام نہیں ہوا تھا۔
طبی جریدے پیر جے میں شائع تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم یہ جاننے کی کوشش کررہے تھے کہ آخر کس چیز نے اس وائرس کو اتنا منفرد بنایا۔
ماضی میں ہونے والے تحقیقی کام میں وائرس کی اسپائیک پروٹین کو ان کوڈ کرنے والے ایک جین کے فنگرپرنٹس کو شناخت کیا گیا تھا، جو نئے خلیات کو متاثر کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس نئی تحقیق میں بتایا گیا کہ وائرس کے جینیاتی کوڈ میں آنے والی تبدیلیوں سے اس کے اسپائیک پروٹینز بھی تبدیل ہوئے، جس کی بدولت وائرل اقسام ان تبدیلیوں کے ساتھ زیادہ پھیلنے پھولنے میں کامیاب رہی۔
اس عمل کے دوران محققین نے ان اسباب کو بھی شناخت کیا جو ماضی کی تحقیقی رپورٹس میں شامل ماہرین دریافت نہیں کرسکے تھے۔
محققین کے مطابق نئے کورونا وائرس کے جینوم کے 2 حصوں میں آنے والی یہ خاموش تبدیلیاں جن کو این ایس پی 4 اور این ایس پی 16 کا نام دیا گیا ہے، سے بظاہر وائرس کو ماضی کے وائرس کی اقسام کے مقابلے میں پروٹین کو بدلنے میں حیاتیاتی سبقت حاصل ہوئی۔
محققین نے بتایا کہ پروٹین پر اثرانداز ہونے کی بجائے ان تبدیلیوں نے وائرس کے جینیاتی مواد کو متاثر کیا، جس سے آر این اے بنا جو انسانی خلیات کے اندر مختلف شکلیں بدلنے اور افعال کی صلاحیت رکھتا ہے۔
محققین کے مطابق آر این اے کی ساخت میں یہ تبدیلیاں نسانوں میں اس وائرس کو دیگر کورونا وائرسز سے کس حد تک مختلف بناتی ہیں، یہ ابھی معلوم نہیں ہوسکا۔
مگر انہوں نے بتایا کہ ممکنہ طور پر اس نے وائرس کے پھیلاؤ کی صلاحیت میں کردار ادا کیا اور وہ بھی لوگوں میں اس کے پہنچنے سے پہلے، یہی وہ اہم فرق ہے جو جس نے موجودہ صورتحال کو 2003 میں سارس کورونا وائرس کے مقابلے میں زیادہ مشکل بنادیا ہے۔