وزیراعظم کا 'اپنی جغرافیائی سالمیت کا دفاع' کرنے والی آذری فورسز کو خراج تحسین
وزیراعظم عمران خان نے آذربائیجان کے یوم آزادی کے موقع پر صدر الہام علیوف اور آذری عوام کو 'دلی مبارکباد' پیش کی ہے۔
نیگورو-کاراباخ خطے میں آذربائیجان کے درمیان تنازع کے تناظر میں وزیراعظم نے کہا کہ 'ہم اپنی جغرافیائی سالمیت کا پوری جرات کے ساتھ دفاع کرنے والی آذری فوجوں کو بھی سلام پیش کرتے ہیں'۔
خیال رہے کہ نیگوروکاراباخ آذربائیجان کا ایک علیحدہ علاقہ ہے جہاں زیادہ تر آرمینائی نسل کے افراد بستے ہیں اور 27 ستمبر سے یہاں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان سلامتی کونسل کی قرارداوں کی روشنی میں نیگورنو-کاراباخ کے حل کے لیے آذربائیجان کے ساتھ ہے۔
خیال رہے کہ ایک روز قبل ہی نیگورو کاراباخ میں متحارب ملکوں آذربائیجان اور آرمینا کے وزرائے خارجہ نے جنگ بندی کی دوسری کوشش کرتے ہوئے انسانی بنیادوں پر جنگ بندی کرنے کا اعلان کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: آذربائیجان کے شہر میں میزائل حملہ، 12 افراد ہلاک
اس اعلان سے قبل روس کے وزیر خارجہ سرجی لاروف کی جانب سے دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ سے ٹیلیفونک گفتگو کی تھی اور ماسکو میں ہوئی جنگ بندی کے معاہدے پر سختی سے عملدرآمد کی ضرورت پر زور دیا تھا۔
یاد رہے کہ آرمینیا اور آذربائیجان نے گزشتہ ہفتے 11 گھنٹے کے مذاکرات کے بعد جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا، مذاکرات میں ثالثی کے فرائض روسی وزیر خارجہ نے انجام دیے تھے تاہم بعد میں دونوں ممالک ایک دوسرے پر اس معاہدے کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے نظر آئے۔
دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ حفیظ چوہدری نے ایک بیان میں کہا کہ 'پاکستان آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین جنگ بندی کے معاہدے کا خیر مقدم کرتا ہے تا کہ مزید انسانی بحران پیدا ہونے سے روکا جاسکے، یہ امن اور استحکام کے لیے مثبت پیش رفت ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمیں اُمید ہے کہ دونوں فریقین جن انسانی شرائط پر متفق ہوئے ان کا مکمل احترام کیا جائے گا'۔
مزید پڑھیں: اقوام متحدہ کا نیگورنو-کاراباخ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ 'پاکستان کو یقین ہے کہ دونوں فریقیں کے مابین پائیدار امن اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرادادوں کے مکمل اور جامع عملدرامد اور آذربائیجان کی سرزمین سے آرمینائی افواج کے انخلا پر منحصر ہے۔
قبل ازیں پاکستان نے آرمینائی وزیراعظم کے اس دعوے کو بے بنیاد اور غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا تھا کہ پاکستان کی اسپیشل فورسز مبینہ طور پر آذربائیجان افواج کے ہمراہ لڑ رہی ہیں۔
ایک بیان میں دفتر خارجہ نے آرمینائی قیادر کو 'غیر ذمہ دارانہ پروپیگنڈا' روکنے اور آذربائیجان کے دفاع کے حق کی حمایت کو دہرایا تھا۔
یاد رہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 1990 میں سوویت یونین سے آزادی کے ساتھ ہی کاراباخ میں علیحدگی پسندوں سے تنازع شروع ہوا تھا اور ابتدائی برسوں میں 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: آرمینیا اور آذربائیجان کے مابین سیز فائر کا معاہدہ چند منٹ بھی برقرار نہ رہ سکا
دونوں ممالک کے درمیان 1994 سے اب تک تنازع کے حل کے لیے مذاکرات میں معمولی پیش رفت ہوئی ہے۔
آرمینیا کے حامی علیحدگی پسندوں نے 1990 کی دہائی میں ہونے والی لڑائی میں نیگورنو-کاراباخ خطے کا قبضہ باکو سے حاصل کرلیا تھا۔
دہائیوں پرانا تنازع
دہائیوں سے جاری ناگورنو کاراباخ تنازع کا ایک بار پھر آغاز ہوا ہے اور اب تک 80 عام شہریوں سمیت تقریبا 700 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ نیگورنو-کاراباخ کو بین الاقوامی سطح پر آذربائیجان کا حصہ تسلیم کیا جاتا ہے لیکن 1994 میں دونوں ممالک کے درمیان جنگ کے اختتام کے بعد سے اس کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے مقامی افراد کے پاس ہے۔اس جنگ میں تقریباً 30 ہزار افراد ہلاک ہوئے تھے۔
آرمینیا، جو ناگورنو-کاراباخ کی پشت پناہی کرتی ہے تاہم اس کی آزادی کو تسلیم نہیں کرتا ہے، نے اعتراف کیا ہے کہ آذربائیجان کی افواج نے گزشتہ ہفتہ سرحد پر اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
جمعہ کے روز اے ایف پی کی ایک ٹیم کو آزربائیجان کی فوج ایرانی سرحد کے قریب تنازع زدہ علاقے کے جنوبی حصے میں دوبارہ قبضہ کرلی گئی ایک بستی میں لے کر گئی۔
آذربائیجان کے عہدے داروں کا کہنا تھا کہ انہوں نے آخری بار جبرائیل کا کنٹرول سوییت جنگ کے بعد حاصل کیا تھا۔ موجودہ کشیدگی اس 6 سالہ تنازع کے بعد مہلک اور طویل ترین ہے۔