نواز شریف نے اداروں اور کرداروں کے درمیان لکیر کھینچ دی، مریم نواز
کراچی میں حکومت مخالف اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومٹ (پی ڈی ایم) نے گوجرانوالہ کے بعد اپنے دوسرے پاور شو کا مظاہرہ کیا جہاں اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک مرتبہ پھر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اور وزیراعظم عمران خان کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
مزار قائد سے متصل باغ جناح میں ہونے والے جلسے میں پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمٰن، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، جمعیت علمائے اسلام پاکستان (نورانی) کے رہنما شاہ اویس نورانی، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، ساجد میر، قمر زمان قائرہ، محسن داوڑ اور دیگر رہنما موجود تھے۔
مذکورہ جلسے سے خطاب میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے وزیراعظم کے حوالے سے کہا کہ دو روز قبل ایک شخص چیخ چیخ کر اپنی شکست کا ماتم کر رہا تھا، عمران خان کے چہرے پر خوف ہے اور عوام یہی خوف ان کے چہرے پر دیکھنا چاہتے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اگر حکومتی معاملات میں دباؤ برداشت کرنا نہیں آتا ہے تو نواز شریف سے سیکھا ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ ابھی تو ایک ہی جلسہ ہوا ہے، ہم جانتے ہیں کہ آپ دباؤ میں ہیں لیکن دباؤ میں کس طرح کام دکھانا ہوتا ہے نہیں پتہ ہے تو خدا را وزیراعظم کے منصب کا خیال رکھا ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ 126 دن وزیراعظم ہاؤس کے باہر شاہراہ دستور میں جمہوریت کی قبریں کھودیں لیکن نواز شریف نے کبھی آپ کا نام لینا گوارا نہیں کیا اور نہ کبھی گھبرا کے الٹی سیدھی بات کی، آج بھی آپ کی حسرت رہے گی کہ نواز شریف آپ کا نام نہیں لے گا۔
'تابعدار ملازم کو پاکستانی قوم لاکھوں ادا کررہی ہے'
وزیراعظم عمران خان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کہا کہ ’بڑوں کے معاملات میں بچوں کا کوئی کام نہیں ہے، تم کس خوشی میں اچھل رہے ہو، تم تابعدار ملازم ہو اب فرق یہ آیا ہے کہ جعلی اور سلیکٹڈ ہونے کی تنخواہ پاکستانی قوم کو لاکھوں میں ادا کرنی پڑ رہی ہے‘۔
مریم نواز نے کہا کہ آپ کا مخاطب بھی عوام نہیں ہوتے، جب آپ خطاب کرتے ہیں تو یا اپوزیشن، یا نواز شریف سے مخاطب ہوتے ہیں یا پھر مریم نواز، بلاول بھٹو یا مولانا فضل الرحمٰن یا ان سے مخاطب ہوتے ہیں جو ان کو لے کر آئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ میں عمران خان کا نام لینا پسند نہیں کرتی اور ان کے الزامات کا جواب دینا مناسب نہیں سمجھتی لیکن کل ایک ایسی بات کی جو شاید میرا مذاق اڑانے کی غرض سے کی گئی لیکن میں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ میں ایک بچی نہیں بلکہ دو بچوں کی نانی ہوں کیونکہ یہ ایک خوبصورت رشتہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ آپ نے میری نہیں بلکہ اس مقدس رشتے کی تضحیک کی ہے، نانی ماں کی ماں ہوتی ہے لیکن میں اس کا جواب نہیں دوں گی اگر جواب دینا چاہوں تو بہت کچھ کہہ سکتی ہوں کیونکہ میں نواز شریف اور کلثوم نواز کی بیٹی ہوں۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ یہ رشتے بڑے مقدس ہوتے ہیں اور یہ رشتے ان کو ملتے ہیں جو رشتے نبھانا جانتے ہیں جو رشتوں کا احترام جانتے ہیں، خاندان کے اقدار جانتے ہیں۔
نائب صدر مسلم لیگ (ن) نے کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نے ہمیشہ سر پر شفقت کا ہاتھ رکھا، بلاول بھٹو نے بہن کی طرح عزت دی، محمود خان اچکزئی نے مجھے اتنی عزت دی کہ جب گزشتہ برس کوئٹہ گئی تو ان کے بیٹے نے دو دن گاڑی چلائی۔
انہوں نے کہا کہ ہم حریف ہوں گے لیکن دشمن نہیں ہوں گے۔
'جمہوری روایت کو برقرار رکھیں گے'
مریم نواز نے بلاول بھٹو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وعدہ کریں کہ ہم انتخابی سطح پر حریف ہوں گے لیکن دشمن نہیں اور ایک دوسرے کی عزت و احترام برقرار رکھیں گے۔
مریم نواز نے کہا کہ بلاول ہم مخالفت میں کبھی اتنے آگے نہیں جائیں گے کہ جو روایت عمران خان اور ان کے وزرا نے ڈال دی ہے، ہم انتخابی میدان میں لڑیں گے لیکن آپس میں نہیں لڑیں گے اور ایک دوسرے کی عزت کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان، نواز شریف کی ایک تقریر پر آپے سے باہر ہوگئے جس کے نشر کرنے پر پابندی تھی، نواز شریف کی آواز میڈیا میں چلانے پر پابندی ہے اور ان کے دل میں خوف ہے، اگر اتنی ہمت ہے تو سنا دیں کہ نواز شریف نے کیا کہا تھا۔
مریم نواز نے کہا کہ اگر نواز شریف سے گھبرا گئے تو نواز شریف کی تقریر پر تبصرے کا بھی حق نہیں ہے، نواز شریف کی تقریر ٹی وی پر نہیں چلی پھر آپ نے کیسے سنی کیا چھپ چھپ کر سن رہے تھے۔
رہنما مسلم لیگ (ن) نے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرکے کہا کہ 'آپ نے چھپ چھپ کر نواز شریف کی تقریر سنی اور کہتے کہتے رک گئے کہ نیب ہمارے ساتھ ہے، سچ حلق میں رک جاتا ہے لیکن جھوٹ بڑی روانی سے بولتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ کون نہیں جانتا کہ نیب کس کے اشارے پر کام کرتا ہے، دنیا جانتی ہے کہ ناصرف نیب بلکہ ایف بی آر تمہارے قبضے میں ہے، ارشد ملک جیسے جج عمران خان کے ساتھ ہیں۔
مریم نواز نے کہا کہ اسلام آباد میں لیڈی ہیلتھ ورکرز کھلے آسمان کے نیچے اپنے مطالبات کو تسلیم کرانے کے لیے موجود ہیں لیکن عمران خان کو کوئی فکر نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ مریم نواز اور بلاول کے آباؤ اجداد کیا تھے پوری قوم کو معلوم ہے، ہمیں مت بتائیں حلال و حرام کے بارے میں لیکن آپ یہ بتائیں کہ جس نوکری پر آپ کو رکھا گیا اس کے علاوہ کبھی کوئی اور نوکری کی۔
'50 لاکھ گھر کہاں گئے'
مریم نواز نے کہا کہ جس انسان کے کچن، کپڑے، جہازوں کے سفر اور گاڑیوں کا خرچہ بھی امیر دوست دیتے ہوں انہیں دوسروں پر الزامات لگانے سے پہلے سو مرتبہ سوچنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ تھا، بتاؤ کدھر ہیں، یقیناً پناہ گاہ میں وہ لوگ کھانا کھانے پر مجبور ہیں جو دو برس قبل تک اپنے گھروں میں تھے کیونکہ عمران خان نے لوگوں سے روز گار چھین لیا، نوکری پیشہ افراد بے روز گار ہوگئے۔
مریم نواز کا کہنا تھا کہ کراچی میں سب سے زیادہ جعلی ایم این ایز ہیں، کیا انہوں نے کوئی ترقیاتی کام کیا، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ عمران خان کا کارنامہ بی آر ٹی ہے جو 120 ارب روپے میں بنایا جبکہ لاہور، ملتان، اسلام آباد، پنڈی میں 4 بی آر ٹی 80 ارب روپے میں فعال ہیں۔
انہوں نے کہا کہ کمر توڑ مہنگائی، گینگ ریپ اور بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ عمران خان کا کارنامہ ہے۔
ساتھ ہی مریم نواز کے مطابق عمران خان کا کارنامہ سقوط کشمیر اور صنعتی شعبوں کی تباہی بھی ہے۔
مریم نواز نے کہا غداری، غداری کا کھیل نہ کھلیں، غیرملکی فنڈنگ کا فیصلہ کیوں نہیں ہو رہا کیونکہ مقدمے میں عمران خان کا جرم ثابت ہوگیا ہے آپ میڈیا کو اور کتنا دباؤ میں رکھو گے۔
'جواب دو تو مودی کی زبان کہتے تھے'
انہوں نے عمران خان کو مخاطب کرکے کہا کہ 'جواب مانگو تو کہتے ہو کہ اپوزیشن مودی کی زبان بولتی ہے، مودی کی کامیابی کی دعائیں مانگوں تم، مودی سے بات کرنے کے لیے مر جاؤ تم، بھارتی جاسوس کے لیے راتوں رات بات کروں تم، سرکاری خرچے سے وکیل ڈھونڈو تم، کشمیر کا مقدمہ ہار جاؤ تم، بھارت کو سلامتی کونسل کے لیے ووٹ دو تم اور مودی کی زبان ہم بول رہے ہیں'۔
مریم نواز نے کہا کہ 'ایٹمی دھماکوں کے جواب میں 6 ایٹمی دھماکے کرے نواز شریف، دنیا بھر میں کشمیر کا مقدمہ لڑے نواز شریف، فوج اور سیکیورٹی اداروں کی تنخواہیں بڑھانے والا نواز شریف، دفاعی بجٹ کو بڑھانے والا نواز شریف، جے ایف تھنڈر بنانے والا نواز شریف، موٹر وے بنانے والا نواز شریف، دہشت گردوں کے خلاف دو جنگوں کی قیادت کرنے والا نواز شریف، رد الفساد، سیاچن کے مورچوں میں فوجیوں کے ساتھ کھڑے ہونے والے نواز شریف ہے'۔
مریم نواز نے کہا کہ 'پھر کہتے ہو کہ نواز شریف فوج کے خلاف بات کرتا ہے، جب تم سے تمہاری ناکامیوں کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو جلدی سے جا کر فوج کی وردی کے پیچھے چھپ جاتے ہو'۔
انہوں نے وزیراعظم عمران خان کو مخاطب کرکے کہا کہ 'تم فوج کو آلودہ کرتے ہو اور ان پر انگلیاں اٹھانے والوں کو تقویت دیتے ہو'۔
مریم نواز نے کہا کہ 'فوج کو اپنی ناکام فوج کے لیے استعمال کرتے ہو، کیا فوج عمران خان کی ہے، کیا تحریک انصاف کے ٹھیکیداروں کی ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'پاکستان کی فوج ہماری ہے، فوج نواز شریف کی ہے، پاکستان کی فوج ہم سب کی ہے، ہاں نواز شریف نے یہ ضرور کیا کہ انہوں نے کرداروں اور اداروں کے درمیان ایک واضح لکیر کھینچ دی ہے، سپاہیوں، شہدا، پاکستان کے لیے اپنی جانوں کا نذرانہ دینے والوں، اپنے بیٹوں کو محاذ اور دہشت گردی میں شہید کرنے والوں کو نواز شریف، مریم نواز اور پی ڈی ایم اور پوری قوم سلام پیش کرتی ہے'۔
مریم نواز نے کہا کہ ’ایک یا دو افراد ادارہ نہیں ہوتے، ایک یا دو افراد ادارے کی بدنامی کا باعث بنتے ہیں اور جب وہ اداروں کی آڑ لیتے ہیں تو اس پر اداروں کا ناتلافی نقصان ہوتا ہے، ہم آپ کو سلوٹ کرتے ہیں اور کریں گے کیونکہ آپ ہماری فوج ہیں لیکن اگر شہید کو سلوٹ کی بات کرتے ہو تو دونوں ہاتھ سے سیلوٹ کرتے ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ 'لیکن اگر آپ یہ چاہو کہ عوام کے ووٹوں کو بوٹوں کے نیچے روند کر آنے والوں کو سلام کریں تو یہ ہم سے نہیں ہوگا، جو حکومتیں بناتا ہے، حکومتیں توڑتا ہے، آپ کے ووٹ کی پرچی کو روندتا ہے،منتخب نمائندے کو اقامے اور تنخوا نہ لینے پر وزیراعظم کے منصب سے باہر نکالتا ہے اور عدالتوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور عدالتوں میں ججوں کو ویڈیوز دکھا کر کہتا ہو کہ ہماری پسند کا فیصلہ دو ورنہ تمھاری خیر نہیں ہے'۔
انہوں نے کہا کہ ’اس کو ہم نہیں مانتے اور وہ ہمارا ہیرو نہیں ہے، نواز شریف کہتا ہے سیاست میں دخل اندازی نہ کرو عوام کے ووٹ میں دخل نہ دو تو کیا غلط کہتا ہے، وہ کہتا ہے حکومت کو گرانے کا اختیار عوام کو ہے جو زمین میں اللہ کے نائب ہیں تو کیا وہ غلط کہتا ہے’۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ کہتا ہے کہ عوامی نمائندوں کی تضحیک مت کرو، وہ کہتا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کا احترام کرو، سندھ، پنجاب، کراچی کے عوام کی عزت کرو، اگر کہتا ہے کہ اپنے حلف کی پاسداری کرو تو کیا وہ غلط کہتا ہے یہی بات تو قائد اعظم نے بھی کہی تھی، اگر آج زندہ ہوتے تو اس قسم کے لوگ خدانخواسطہ غداری کے فتوے لگاتے’۔
مریم نواز نے کہا کہ نواز شریف کہتے ہیں کہ میڈیا کو آزاد کرو، پیمرا کو حکم جاری نہ کرو چینلز کو فون نہ کرو کہ تمھارا فلاں بندہ زیادہ حق کی بات کرتا ہے اس کو نوکری سے نکالو۔
کل ایک شخص چیخ چیخ پر اپنی شکست کا ماتم کررہا تھا، مریم نواز
پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کراچی کے عوام اور دیگر قائدین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ پی ڈی ایم کی وجہ سے کئی برسوں بعد کراچی آئی تو بینظیر بھٹو شہید کی یاد آئی جن سے ایک ملاقات ہوئی تھی جو 3 گھنٹوں پر مشتمل تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں نے کراچی میں جس والہانہ استقبال کیا اور کراچی نے جس طرح جوڑا اس کو پوری زندگی نبھاؤں گی، مجھے آج کراچی اور لاہور کی سڑکوں میں فرق نظر نہیں آیا جس پر میں بہت شکر گزار ہوں۔
مریم نواز نے کہا کہ مراد علی شاہ اور پیپلز پارٹی نے کورونا وائرس کا جس طرح مقابلہ کیا اور اقدامات کیے اس پر خراج تحسین پیش کرتی ہوں۔
نواز شریف کی تقریر کے حصوں پر ہمارے کچھ بڑوں کو بڑا اعتراض تھا، مولانا فضل الرحمٰن
ادھر جمعیت علمائے اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے جلسے سے اپنے خطاب میں کہا کہ 'پی ڈی ایم کا مقصد درحقیقت آزاد جمہوری فضاؤں کو بحال کرنا ہے، دو سال سے میدان میں ہیں، ہمیں مجبور کیا جا رہا ہے کہ ہم دھاندلی کے نتیجے میں قائم کی گئی حکومت کو تسلیم کرلیں لیکن تمام مراحل گزر گئے، ہمیں لالچ اور ترغیب بھی دی گئی لیکن ہم نہیں ڈرے، ہم اپنے مؤقف پر قائم ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم اعلان کرتے ہیں کٹھ پتلی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں'۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ، پنجاب اور اسلام آباد میں تمام لوگوں نے آزادی مارچ میں ہمارا ساتھ دیا جس کے لیے میں مشکور ہوں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ نواز شریف کے بیان کو الیکڑانک میڈیا پر نشر نہیں کیا گیا لیکن ان کے کچھ حصوں پر ہمارے کچھ بڑوں کو بڑا اعتراض ہے۔
'آرمی چیف آپ قابل احترام ہیں لیکن بیوقوف دوستوں سے تو بچیں'
انہوں نے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ ہمارے لیے قابل احترام ہیں لیکن بیوقوف دوستوں سے تو بچنے کی کوشش کریں'۔
ان کا کہنا تھا کہ اور ’اگر آپ کے دل میں کوئی شکایت ہے تو اس کی شکایت ہم سے نہیں، اپنے احمق دوستوں سے کیجئے‘۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ 'ریاستوں کی بقا کا تعلق معاشی اور اقتصادی قوت سے ہے، جب مسلم لیگ (ن) اپنا آخری بجٹ پیش کررہی تھی اس نے آنے والے سال کے لیے معاشی ترقی کا تخمیہ ساڑھے 5 فیصد لگایا تھا اور اس سے اگلے سال انہوں نے سالانہ معاشی ترقی کا تخمیہ ساڑھے 6 فیصد لگایا تھا‘۔
انہوں نے کہا کہ 'حکومت ان نااہل لوگوں کو ملی جو عوام کے نمائندے نہیں تھے، چوری کے ووٹ سے اسمبلی میں آئے تھے، پہلے سال کے بجٹ میں سالانہ معاشی ترقی کا تخمیہ ساڑھے پانچ فیصد کے بجائے 1.8 پر لے آئے جبکہ دوسرے بجٹ میں معیشت 0.8 فیصد پر آگئی'۔
'آپ سے یہ بات منوائیں گے کہ غلطی ہوئی ہے'
ان کا کہنا تھا کہ جب معیشت کی کشتی ڈوبتی ہے تو ریاستیں اپنا وجود کھو بیٹھتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ جب قوتوں نے ہم سے کہا کہ یہ حکومت تسلیم کرلیں تو ہم نے انکار کردیا تاہم 'آپ سے یہ بات منوائیں گے کہ غلطی ہوئی ہے اور ہم معافی مانگتے ہیں اور آئندہ یہ غلطی نہیں دہرائیں گے'۔
انہوں نے کہا کہ ہم سب پاکستانی ہیں، ہم سب کی عزت نفس ہے اور اسی عزت نفس کے ساتھ جینا چاہتے ہیں۔
بھٹو اور بینظیر نے ملک میں جمہوریت کی بقا کیلئے اپنا خون دیا، بلاول بھٹو
علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پی ڈی ایم کے جلسے میں اپنے خطاب میں کہا کہ آج پاکستان کے لیے تاریخی دن ہے، کئی دہائیوں بعد آج کراچی کے جلسے میں راشد ربانی نہیں ہیں، سارے جمہوری کارکن راشد ربانی کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سانحہ کار ساز میں بینظیر بھٹو اور شہدا کا غم زندگی بھر ہمارے ساتھ رہے گا اور پاکستان کی تاریخ میں سرخ حرف میں تحریر کیا جائے گا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ ہمیں اس غم کو اپنی طاقت میں بدلنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'بینظیر بھٹو جانتی تھیں کہ اگر وہ جمہوریت، عوام اور سچائی کا راستہ چھوڑ دیں تو قاتلوں سے بچ سکتی تھیں لیکن وہ اپنی ہمت میں بینظیر تھیں، انہوں نے کبھی عوام کا ساتھ نہیں چھوڑا'۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ بھٹو اور بینظیر نے ملک میں جمہوریت کی بقا کے لیے اپنا خون دیا، پاکستان کی تمام جمہوری طاقتوں کو یہ سفر جاری رکھنا ہے۔
'آئین کی بقا کی جنگ لڑنی ہے'
انہوں نے کہا کہ آج بہت اہم موڑ پر کھڑے ہیں، آئین کی بقا کی جنگ لڑنی ہے، تمام ادارے کمزور کیے جارہےہیں جو عوام کا تحفظ کرتے ہیں'۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ'ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے‘، عوام کی ذمہ داریاں عوام کی برداشت سے زیادہ ہے اور حکمران اپنا فرض ادا کرنے سے منکر ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب جمہوریت نہ ہو تو فیصلے عوام کی منشا سے نہیں چند لوگوں کے لیے کیے جاتے ہیں ، منہگائی عروج پر ہے اور عوام کو شکایت کی اجازت نہیں ہے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ حکومت کی ترجیح اپنے وزرا کو بچانا ہے، وزیراعظم کو روپے کی قدر میں کمی کی خبر ٹی وی سے ملتی ہے، عمران خان کو عوام کی بھوک اور غصہ نہیں نظر آتا۔
'پنجاب میں ڈمی وزیراعلیٰ لگا کر صوبے کے عوام کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے'
انہوں نے کہا کہ مخالفین کے لیے نیب کا اندھا قانون ہے اور سلکیٹڈ وزیراعظم کے دوستوں کے لیے ساری چھوٹ ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ پنجاب میں ڈمی وزیراعلیٰ لگا کر صوبے کے عوام کے ساتھ مذاق کیا جارہا ہے۔
ساتھ ہی چیئرمین پی پی پی نے کہا این ایف سی کے تحت 300 ارب روپے سندھ کو نہیں دیے گئے جبکہ اس سے کراچی میں 300 ارب روپے کے ساتھ روز گار فراہم کرسکتے تھے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ 'جہاں سے گیس نکلتی ہے وہاں کے لوگوں کو گیس فراہم نہیں کی جاتی، کے الیکٹرک عوام کا خون چوس رہی ہے اور عمران خان اپنے دوست کو بچانے کے لیے کراچی کے عوام کو اندھیرے میں دھکیل دیتا ہے'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہمارے ہاں اب تک سیلاب کے متاثرین ہیں، تاریخی سیلاب اور مون سون دیکھا، کراچی سے بدین تک سیلاب کے متاثر آج بھی موجود ہیں لیکن وزیراعظم نے پوچھا تک نہیں'۔
'کراچی کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا پیکج دھوکا نکلا'
ان کا کہنا تھا کہ کراچی کے لیے ایک ہزار ارب روپے کا پیکج دھوکا نکلا، ساتھ ہی انہوں نے کراچی کے جزائر سے متعلق آرڈیننس کے بارے میں کہا کہ اگر بدھ تک آرڈیننس واپس نہیں لیا تو سینیٹ میں قرار داد پاس کرکے مذکورہ آرڈیننس کو لات مار کر کے باہر پھینک دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جزائر سندھ اور بلوچستان کی ملکیت ہے، وفاق کو آئی لینڈ پر قبضہ کرنے نہیں دیں گے۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ 'کٹھ پتلی وزیراعظم کی وجہ سے خارجہ پالیسی متاثر ہوتی ہے، کشمیر کو بچانے والے بھارتی جاسوس کو بچانے کی بات کرتے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ تمام پڑوسی اور دوست ممالک کے ساتھ تعلقات خطرے میں ڈال دیا ہے۔
'لاپتا ہونے والے افراد کی ذمہ دار ریاست ہے'
بات کو جاری رکھتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کو لاپتا کیا جارہا ہے اور اس جرم میں ریاست ملوث ہے، ہسپتال میں ادویات نہیں ہیں، تعلیم کا بجٹ کم کیا جارہا ہے، معیشت تباہ ہوچکی ہے اور حکمران بے فکر ہے کیونکہ یہ عوام کے ووٹ سے بلکہ کسی اور کے کہنے پر آئے ہیں۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ 'عمران خان کا غرور پاکستان کے عوام مٹی میں ملا دے گی، کٹھ پتلی وزیراعظم اور ان کے سہولت کاروں کو ماضی کے آمر کو یاد کرنا چاہیے’۔
انہوں نے کہا کہ یہ لڑائی نئی نئی نہیں ہے بلکہ اب فیصلہ کن ہوگی، ہماری جمہوریت کے ساتھ کھیل بند کرنا ہوگا، جب پاکستان میں آمرانہ طاقتیں جمہوریت پر حملہ آور ہوئی ہیں تب تب پی پی پی کھڑی ہوئی ہے۔
چیئرمین پی پی پی نے ایم آر ڈی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ آج بھی مخالف وہی طاقتیں ہیں جو عوام کے دشمن ہیں جن کے حقوق کے لیے متحد ہو کر مقابلہ کرنا ہے، یہ لڑائی ہم سب کو لڑنی ہے، پارلیمنٹ، سڑکوں اور جیلوں میں بھی لڑنی ہے۔
'پارلیمنٹ میں نہیں بولنے نہیں دیا تو سڑکوں پر آئیں گے'
انہوں نے کہا کہ اگر پارلیمنٹ میں بولنے کی اجازت نہیں ہوگی تو سڑکوں پر احتجاج کریں اور اگر جیل میں ڈالیں گے تو تب بھی حق کی ہی آواز نکلے گی۔
بلاول نے کہا کہ یہ جنگ پی ڈی ایم کے سیاسی جماعتوں کی نہیں ہے بلکہ وکلا، ڈاکٹروں، اساتذہ، سرکاری ملازمین اور ہر طبقے کی ہے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ وزیراعظم کو جانا پڑے گا، 73 کے آئین کو نبھانے کی تحریک ہے، عوام کو حق حکمرانی دلانی کی تحریک ہے۔
یہ قافلہ پاکستان کی تشکیل نو کیلئے نکلا ہے، محمود خان اچکزئی
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ گجرانوالہ کے پہلوانوں کے جلسے کے بعد کراچی کے اس جلسے کا اثر بہت شدت سے ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں اس لیے نہیں آئے کہ ہم لوگوں کو گالیاں دیں، ہم اتنے بےکار ہیں، مولانا فضل الرحمٰن، بلاول بھٹو، نواز شریف، مریم نواز اور ہم نے سوچ سمجھ کر پی ڈی ایم بنائی ہے، اس میں عوام کا اتحاد اور تعاون چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یہ قافلہ نئے پاکستان کی تشکیل کے لیے نکلا ہے جو اس ملک کے بنانے والوں کا پروگرام ہے، جس کے تحت پاکستان ایک ایسا قلعہ بنایا جائے مسلمانوں کی ایک مملکت ہوگی اس میں انصاف ہوگا، پارلیمنٹ طاقت کا سرچشمہ، آئین بالادست اور لوگ خود مختار ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم پاکستان کی تشکیل نو چاہتی ہے، بغیر خون، گولی کے انقلاب لانا چاہتے ہیں، پاکستان ہمیں کسی نے خیرات میں نہیں دیا، ہم اس ملک کے رہنے والے ہیں۔
محمود اچکزئی کا کہنا تھا کہ ایسا کیوں ہے کہ امیر حیدر ہوتی، مولانا فضل الرحمٰن یا کسی سندھ کے شہری کی تقریر سے کوئی نفرت نہیں پھیلے مگر ناانصافی سے نفرت پھیلے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا وعدہ ہے کہ ہم قومی اسمبلی کے جنگلے توڑ کر اس میں داخل ہو کر خیمے نہیں لگائیں اور اسمبلی کی بے توقیری کریں گے، رکاؤٹیں ہٹا کر وزیراعظم ہاؤس کو بند نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میری تجویز ہے کہ پاکستان کے تمام اضلاع کے ڈپٹی کمشنرز سے عوام استعفیٰ مانگے اور انہیں باہر نکال دیں۔
پی ڈی ایم آئین کی بالا دستی کی تحریک ہے، امیر حیدر خان ہوتی
عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے رہنما امیر حیدر خان ہوتی نے کہا کہ 18 اکتوبر تو شہدا سے شروع ہوگی، میں شہدائے کارسا، 12 مئی کے شہدا، کراچی، سندھ، خیبرپختونخوا، بلوچستان، پنجاب کے شہدا کو خراج تحسین پیش کروں گا اسی طرح پچھلے چار دنوں میں جو 22 جوان شہید ہوئے ہیں وہ بھی ہمارے ہیں اور شہید بینظیر بھٹو کو بھی خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ پہلے کہا گیا کہ اے پی سی نہیں ہوگی، پھر کہا فیصلے نہیں ہوں، فیصلے بھی ہوگئے، تحریک شروع نہیں ہوگی لیکن تحریک شروع ہو چکی پھر کہا کہ تحریک ناکام ہوگی تو کراچی سے پیغام دے رہا ہوں کہ تحریک کامیاب ہوگی۔
وفاقی حکومت کو مخاطب کرکے انہوں نے کہا کہ ہماری تحریک ایک سلیکٹڈ حکومت کے خلاف ہے، ہماری جدوجہد ایک سیاسی تحریک ہے لیکن آپ نے امپائر کی انگلی کے مطابق جلسے کیے اور تحریک چلائی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نئے عمران خان کو بھی دیکھ لیں گے، عوام بھی دیکھ رہے ہیں کہ معیشت کا کیا حال ہوا ہے، ملک کا معاشی حب کراچی میں بھی مزدور احتجاج کررہا ہے۔
امیر حیدر ہوتی کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم کی تحریک این آراو کے لیے نہیں بلکہ معیشت کے مسائل کا حل، این ایف سی ایوارڈ، 18 ویں ترمیم کا تحفظ، اداروں کے اختیارات، آئین کا تحفظ اور پارلیمنٹ کی بالادستی کی جدوجہد ہے۔
پنجاب حکومت نے بلوچ طلبہ کا کوٹہ ختم کردیا، ڈاکٹر عبدالمالک
نیشنل پارٹی کے رہنما ڈاکٹر محمد مالک نے کہا کہ میں سانحہ کارساز اور دنیا بھر کے ان شہدا کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنی مادر وطن اور نظریات کے لیے جدوجہد کی اور شہید ہوئے۔
انہوں نے پی پی پی چیئرمین بلاول بھٹو کا شکریہ ادا کیا اور میر حاصل خان بزنجو کو خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ ان کی کوششوں سے اپوزیشن کی جماعتیں یک جا ہوئیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم چاہتے ہیں عدلیہ اور میڈیا آزاد ہو لیکن بدقسمتی سے ملک میں 72 برسوں سے سیکیورٹی اسٹیٹ کا وژن ہے جو اس ملک کے بینادی حقوق کو ماننے سے انکاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم کہتے ہیں کہ یہ ملک کثیرالقومی ریاست ہے، یہاں پنجابی، سندھی، پختون، بلوچ اور سرائیکی اپنی تاریخی سرزمین پر بیٹھے ہیں، ان کی حیثیت کو مانیں لیکن اس سے انکار کیا جارہا ہے۔
ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی سے انکار کیا جارہا ہے اور طاقت کا سرچشمہ عوام کے بجائے بندوق کو سمجھا جاتا ہے اور پارلیمنٹ کو ربر اسٹمپ بنا رکھا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک آمر جنرل مشرف نے بلوچستان میں آگ لگائی جس میں ہزاروں جوان جل گئے، نواب اکبر بگٹی پر حملہ کیا گیا پھر پہاڑوں پر جا کر انہیں مارا گیا۔
انہوں نے کہا کہ لاپتاافراد ایک انسانی مسئلہ بن گیا ہے، پاکستان کا آئین یہ حق نہیں دیتا ہے کہ ہمارے نوجوانوں کو لاپت کرکے ان کی لاشوں کو سڑکوں اور جنگلوں میں پھینک دیں۔
سابق وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ صوبے کا مسئلہ گولی سے حل نہیں ہوگا بلکہ مذاکرات کریں اور مذاکرات کا جو سلسلہ پچھلی حکومت نے شروع کیا تھا وہ بحال کریں۔
ان کا کہنا تھا کہ پنجاب کی سابق حکومت میں نواز شریف اور شہباز شریف نے بلوچستان کے طلبہ کو پنجاب کی تمام جامعات میں کوٹہ رکھا تھا لیکن موجودہ حکومت نے جامعات سے تمام بلوچ طلبہ کو نکال دیا جو باعث شرم ہے۔
مینڈیٹ کی چوری بدترین کرپشن ہے، ساجد میر
جمعیت اہل حدیث کے رہنما علامہ ساجد میر نے اپنے خطاب میں کہا کہ پی ڈی ایم کا پہلا جلسہ ملک کے پہلے جمہوری اور سیاسی وزیراعظم لیاقت علی خان کا یوم شہادت کے موقع پر کیا گیا اور دوسرا جلسہ کارساز کے دل دوز سانحہ کے شہدا کے حوالے سے منعقد کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آج ہم ان کو یاد کرتے ہوئے جمہوریت کے دشمنوں اور اس ملک میں جمہوریت نہ چلنے دینے والوں سے سوال کرتے ہیں کہ کیا کارساز سانحے میں کثیر تعداد میں شہدا کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد کیا کراچی اور پورے پاکستان کے لوگوں کی جمہوریت سے محبت ختم ہوئی ہے، نہیں ہوئی۔
ساجد میر نے کہا کہ لیاقت علی خان کی شہادت اور اسی واقعے کے آر میں سول بیورکریسی غلام محمد، سکندر مرزا، چوہدری محمد علی کی شکل میں پاکستان پر مسلط ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم حکومت کی چینی، آٹا، پیٹرول، جمہوریت اور ووٹ چوری کے خلاف اور اس کو روکنے کے لیے میدان میں آئی ہے اور عوام کی مدد سے اپنی مقصد میں کامیاب ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ سب سے بڑی اور بدترین کرپشن عوام کے مینڈیٹ کی چوری ہے، عوام کے مینڈیٹ کو تبدیل کرنا، ووٹ کے بکسے کو بدلنا، ہارتے ہوئے بکسے میں جیتنے والے کے ووٹ ڈالنا، آرٹی ایس سسٹم کو بند کرنا، پولنگ ایجنٹس کو اسٹیشن سے باہر نکالنا بدترین کرپشن ہے۔
ساجد میر کا کہنا تھا کہ مینڈیٹ چوری کرنے کے علاوہ معیشت کا برا حال کردیا گیا اور لانے والوں کا ہی دخل ہے لیکن ان میں چھوٹے چھوٹے کام کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔
موجودہ حکومت آمریت سے بدتر ہے، محسن داوڑ
پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ پی ڈی ایم ‘ملک میں حقیقی جمہوریت اور سول بالادستی کا آغاز ہے’۔
انہوں نے وزیرستان، گلگت بلتستان، بلوچستان اور سندھ میں سیاسی کارکنوں کے خلاف بے بنیاد مقدمات درج کرنے پر حکومت سخت تنقید کی۔
محسن داوڑ نے کہا کہ یہ مقدمات سیاسی اختلاف کی وجہ سے درج کیے گئے، موجودہ حکومت آمریت سے بھی بدتر ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘میں اس حکومت کو آمریت سے بدتر سمجھتا ہوں کیونکہ وہ وزیراعظم کو بھی دھکے مارتے تھے، درحقیقت ایجنسیاں فیصلہ ساز ہیں’۔
ان کا کہنا تھا کہ ‘ریاستیں جنگی فرانچائز کے طور پر یا جنگی معاہدوں پر نہیں چل سکتیں، ریاست کو چلانے کے لیے اپنے شہریوں کا احساس دلانا ہوگا کہ وہ غلام نہیں بلکہ معزز شہری ہیں’۔
محسن داوڑ نے کہا کہ ‘ریاست کو چلانے کے لیے اختیارات شہریوں کو دینے ہوں گے ورنہ یہ کمپنی نہیں چل سکتی’۔
انتخابات میں کراچی کا میڈیٹ چوری کیا گیا،اویس نورانی
جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) کے رہنما شاہ اویس نورانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ کراچی کا مینڈیٹ چوری کیا گیا اور شہری مینڈیٹ چوری کرنے والوں کو معاف نہیں کریں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو جتوایا گیا وہ تو جاکر سوگئے تھے لیکن جگا کر بتایا گیا کہ پپواٹھ جاو تم جیت گئے ہیں، اس طرح اس شہر کا مینڈیٹ چوری کیا گیا۔
شاہ اویس نے کہا کہ آنے والا سال انتخابات کا سال ہوگا، پی ڈی ایم کے کارکن انتخابات کے دوران اپنے بیلٹ کی حفاظت کریں، پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں مینڈیٹ چوری کرنے والوں کو شکست دیں گی۔
انہوں نے کہا کہ 72 برس میں اس شہر کےلیے 2013 کے انتخابات کے بعد گرین لائن بس سروس کا منصوبہ دیا گیا تھا لیکن موجودہ وفاقی حکومت نے اس منصوبے کو اس لیے ختم کردیا کہ اس پر تختی سابق وزیراعظم نواز شریف کی لگی ہوئی ہے۔
مزید پڑھیں: پی ڈی ایم جلسہ: رہنماؤں کے حکومت پر وار،نواز شریف کے فوجی قیادت پر الزامات
ان کا کہنا تھا کہ اس منصوبے سے کراچی کے لوگوں کی سہولت کے لیے تھے لیکن وفاق نے اس کا بجٹ روک کر عوام دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے۔
شاہ اویس نے کہا کہ اس اتحاد کا واحد ایجنڈا ہے کہ انتخابات میں جو ووٹ ڈالا جاتا ہے اس کی حفاظت کی جائے اور اس کے لیے قوم جاگ چکی ہے۔
جلسہ گاہ کے انتظامات
اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم کے جلسے کے لیے کراچی میں مزار قائد سے متصل باغ جناح میں تیاریاں کی گئی تھیں۔ اور گوجرانوالہ کے مقابلے میں یہاں جلسے کے لیے انتظامات کرنا کافی آسان دکھائی دیے کیونکہ یہاں پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) کی صوبائی حکومت خود اس اتحاد کا حصہ تھی۔
پیپلزپارٹی کی میزبانی میں ہونے والے جلسے 18 اکتوبر 2007 کو پیش آئے سانحہ کارساز کی 13ویں برسی کے موقع پر منعقد کیا گیا۔
جلسے کے بارے میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ڈان کو بتایا تھا کہ پیپلزپارٹی ایک بڑا پاور شو کرنے جارہی ہے جو عمران خان کو بتائے گا کہ لوگ ان کے بارے میں کیا سوچتے ہیں، یہی نہیں بلکہ مجھے پی ڈی ایم کی کامیابی پر کوئی شک بھی نہیں ہے۔
مزار قائد کے سامنے ایک بہت بڑا ملٹی کنٹینر اسٹیج تیار کیا گیا تھا اس کے ساتھ ساتھ باغ میں مختلف مقامات ساؤنڈ سسٹم کے تحت بڑے سائز کے اسپیکرز بھی لگائے گئے تھے۔
یہاں یہ واضح رہے کہ 3 روز قبل 16 اکتوبر کو گوجرانوالہ جلسے سے قبل اپوزیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کی پنجاب حکومت کے خلاف کریک ڈاؤن کی شکایات کی گئی تھیں تاہم کراچی میں صورتحال بالکل مختلف رہی۔
پولیس کی سیکیورٹی اور مقامی انتظامیہ کی مدد کے دوران ہی بڑی تعداد میں صوبائی حکمران جماعت کے کارکنان اور نوجوان پی ٹی آئی حکومت کے خلاف جلسے کی تیاریوں میں مصروف رہے۔
جلسے میں رہنماؤں کی آمد
پی ڈی ایم کے پاور شو کے سلسلے میں اس اتحاد کے صدر مولانا فضل الرحمٰن ایک روز قبل ہی کراچی پہنچ گئے تھے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے نجی ہسپتال میں پی پی پی شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری سے ملاقات کی تھی جس کے بعد بلاول ہاوس چلے گئے تھے جہاں دیگر رہنماوں سے بھی تبادلہ خیال کیا۔
وہیں دوسری جانب پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز جلسے میں شرکت کے لیے لاہور سے کراچی پہنچ گئی تھیں۔
جناح انٹرنیشنل ایئرپورٹ کراچی پہنچنے پر مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کی بڑی تعداد مریم نواز کے استقبال کے لیے موجود تھی اور قافلے کی صورت میں ایئرپورٹ سے مزار قائد روانہ ہوا۔
مریم نواز پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کارکنوں کی بڑی تعداد کے ہمرا مزار قائد پہنچیں اور فاتحہ خوانی کی، جہاں سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی، سابق گورنر سندھ محمد زبیر، کیٹپن (ر) اور مریم اورنگ زیب بھی ان کے ساتھ تھیں۔
مزار قائد میں فاتحہ خوانی کے بعد وہ واپس روانہ ہوئیں اور رپورٹس کے مطابق مقامی ہوٹل میں پی ڈی ایم کے رہنماوں کے ہمراہ لائحہ عمل پر بات کی تھی۔
مریم نواز نے کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ‘مجھے فرق نہیں لگا کہ لاہور میں ہوں یا کراچی میں ہوں، آج لوگوں نے وہ فرق مٹا دیا ہے جس کے لیے میں ان کا بہت شکر گزار ہوں اور جلسہ بھی کامیاب ہوگا’۔
واضح رہے کہ کراچی میں عوامی جلسے میں مریم نواز کی یہ پہلی شرکت تھی اور وہ ایئرپورٹ سے پہلے مزار قائد پہنچیں، مسلم لیگ (ن) کراچی کا کہنا تھا کہ ان کے استقبال کے لیے 17 کیمپ لگائے گئے۔
قبل ازیں لاہور میں جاتی امرا سے ایئرپورٹ روانگی کے موقع پر مریم نواز نے عمران خان سے متعلق پوچھے گئے سوال پر کہا تھا کہ یہ ایک ہارے ہوئے شخص کی تقریر تھی اور انہیں بہت غصہ تھا لیکن نواز شریف نے ان سے خطاب کیا ہی نہیں اور انہوں نے کہا تھا کہ یہ آپ کا کھیل نہیں آپ ان سے باہر آجائیں جبکہ بڑوں کی لڑائی میں چھوٹوں کا کام نہیں ہے۔
انہوں نے کہا تھا کہ حکومت کو کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا لیکن کچھ دنوں میں سب نظر آجائے گا۔
پروڈکشن آرڈر سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ پہلے بھی عام جیلوں میں رکھا گیا تھا جو یہ سمجھتا ہے کہ جیل میں سہولیات تھیں وہ غلط سمجھتا ہے، یہ دھمکیاں کسی اور کو دیجیے گا۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کا حملہ آرمی چیف پر نہیں بلکہ فوج پر ہے، وزیر اعظم
انہوں نے کہا تھا کہ 2 مرتبہ گرفتار ہوکر 4 سے 6 ماہ جیل کاٹ آئی ہوں، جو گرفتاری کا خوف تھا وہ اب ختم ہوگیا ہے۔
رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ بھی پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے کارکنوں کے ہمراہ جلسے میں شرکت کے لیے کراچی پہنچے۔
ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے ریلی میں شرکت کی دعوت دی تھی۔محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ اپنے تقریرمیں ملک کی صورت حال، لاپتا افراد اور قبائلی علاقوں کے حوالے سے جلسے کے شرکا کو آگاہ کروں گا۔
پی ڈی ایم کے پہلے جلسے میں محسن داوڈ نے شرکت نہیں کی تھی۔
کراچی میں ہونے والی ریلی سے سابق وزیراعظم نواز شریف نے خطاب نہیں کیا تھا تاہم گزشتہ جلسے میں انہوں نے لندن سے بذریعہ ویڈیو لنک پر خطاب کیا تھا۔
واضح رہے کہ گوجرانوالہ جلسے میں نواز شریف نے اپنے خطاب میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ اور انٹرسروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید پر الزامات لگائے تھے جبکہ اداروں پر تنقید بھی کی تھی۔
پی ڈی ایم کیا ہے؟
پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، 20 ستمبر کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والا 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو رواں ماہ سے شروع ہونے والے ’ایکشن پلان‘ کے تحت 3 مرحلے پر حکومت مخالف تحریک چلانے کے ذریعے حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔
ایکشن پلان کے تحت پی ڈی ایم نے رواں ماہ سے ملک گیر عوامی جلسوں، احتجاجی مظاہروں، دسمبر میں ریلیوں اور جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف ایک ’فیصلہ کن لانگ مارچ‘ کرنا ہے۔
مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے پہلے صدر ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف سینئر نائب صدر ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اس کے سیکریٹری جنرل ہیں۔
اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اس اتحاد میں بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں۔