بجلی کے شعبے میں بڑی تبدیلوں کا منصوبہ
اسلام آباد: حکومت بجلی کے شعبے میں بڑی تبدیلیوں کا منصوبہ بنارہی ہے جس کے تحت صنعت اور چھوٹے و درمیانے درجے کے کاروباری اداروں (ایس ایم ایز) کے لیے مراعات پر مبنی کم قیمت اور صارفین کے ٹیرف کو ایک بنانے، تقسیم کار کمپنیوں (ڈسکو) کی صوبوں کو منتقلی، پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کے تحت کے الیکٹرک کے اکثریتی حصص شنگھائی الیکٹرک کو منتقل کرنا شامل ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حال ہی میں تعینات ہونے والے وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے توانائی تابش گوہر نے ڈان کو بتایا کہ وہ ملک بھر میں یکساں بجلی کے نرخوں کو ختم کرنے پر بھی زور دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کے مشیر برائے خزانہ اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر سے حالیہ ملاقات کے دوران بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے عملے نے مبینہ طور پر بجلی کے نرخوں میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا۔
مزید پڑھیں: بجلی کی قیمت میں 50 پیسے فی یونٹ اضافے کی تیاری
اس معاملے کو وزیر اعظم عمران خان اعلیٰ سطح پر مخصوص اصلاحی اہداف کے حصول کے لیے اس معاملے کو اٹھائیں گے۔
ان کا ماننا ہے کہ آئی ایم ایف کی قیادت کو یہ اعتماد حاصل ہوگا کہ ماضی میں وزارتی اور عملے کی سطح کے وعدوں کے برعکس پاکستان میں اعلیٰ سطح پر وعدوں پر پوری طرح عمل کیا جائے گا۔
تابش گوہر نے کہا کہ پاور ڈویژن نے نیا ٹیرف ماڈل تیار کیا ہے جسے وزیر اعظم کے سامنے پیش کیا جاچکا ہے اور اسے حتمی شکل دی جارہی ہے۔
اس کے تحت پیک آورز (جن اوقات میں بجلی کا لوڈ زیادہ ہوتے ہیں) اور آف پیک آورز کے مختلف نرخوں کا خاتمہ کیا جائے گا اور صارفین کو اضافی بجلی کی صلاحیت کے زیادہ سے زیادہ استعمال کی حوصلہ افزائی کے لیے چوبیس گھنٹے کم نرخوں سے لطف اندوز ہونے کی پیش کش کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی کو گیس، بجلی کی فراہمی میں بہتری کی یقین دہانی
انہوں نے کہا کہ حکومت حالیہ برسوں میں بڑی صنعت کو بجلی کے کم نرخ فراہم کررہی ہے لیکن ایس ایم ای سیکٹر جو واقعتا ملازمت پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور جی ڈی پی میں خاطر خواہ شراکت کرسکتا ہے، کو نظرانداز کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایس ایم ایز اور یہاں تک کہ رہائشی صارفین کے لیے چوٹی کی شرحیں ختم کردی جائیں گی۔
انہوں نے کہا کہ ’جب ملک میں اضافی صلاحیت موجود ہے تو 21 روپے فی یونٹ یا اس سے زائد نرخ کا کوئی جواز نہیں ہے‘۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ادائیگیوں کے چیلنج کا مقابلہ کیا جائے گا جس کا اندازہ رواں مالی سال میں 900 ارب روپے سے زیادہ ہوگا اور اگلے سال 16 کھرب روپے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا کہ اوسط نرخ بھی لوگوں کی ادائیگی کی صلاحیت سے تجاوز کرچکا ہے۔