پاکستان

توہین مذہب و رسالت کے ملزم کے قتل کیس میں 3 افراد پر فرد جرم عائد

مشتبہ نوجوان قاتل سمیت دیگر ملزمان جونیئر وکیل طفیل ضیا اور مولوی وسیع اللہ نے صحت جرم سے انکار کردیا۔

پشاور: انسداد دہشت گردی عدالت نے جوڈیشل کمپلیکس میں زیر سماعت توہین مذہب و رسالت کے ملزم کے قتل کے کیس میں جووینائل (کم عمر) نوجوان سمیت 3 افراد پر فرد جرم عائد کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق مشتبہ نوجوان قاتل سمیت دیگر ملزمان جونیئر وکیل طفیل ضیا اور مولوی وسیع اللہ نے صحت جرم سے انکار کردیا۔

اس کے علاوہ جج طارق یوسفزئی نے بطور خصوصی جج جووینائل کورٹ نے مشتبہ قاتل کے خلاف ایک علیحدہ چارج بھی عائد کیا۔

مزید پڑھیں: توہین مذہب کے ملزم کے مشتبہ قاتل کا مقدمہ جووینائل قانون کے تحت چلانے کا حکم

پشاور سیٹرل جیل کے اندر ہونے والی سماعت میں انہوں نے مذکورہ معاملے پر فرد جرم عائد کیے جانے کے بعد اسے آئندہ سماعت کے لیے 21 اکتوبر تک ملتوی کردیا تاہم ساتھ ہی استغاثہ کو عدالت کے سامنے گواہان پیش کرنے کی ہدایت کردی۔

مرکزی ملزم پر تین مقدمات پر فرد جرم عائد کی گئی، جس میں اہم الزام 29 جولائی کو کمرہ عدالت میں ہتھکڑی میں موجود زیر سماعت قیدی طاہر احمد نسیم کا قتل عمد (جان بوجھ کر قتل) کرنا تھا، جو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 اور انسداد دہشت گردی ایکٹ کی دفعہ 7 کے تحت قابل سزا جرم ہے۔

اس کے علاوہ ملزم پر اس قتل میں استعمال، پستول کو رکھنے پر خیبرپختونخوا اسلحہ ایکٹ 2013 کی دفعہ 15 کے تحت کے تحت فرد جرم عائد کی گئی۔

دیگر ملزمان میں طفیل ضیا اور وسیع اللہ شامل ہیں ان پر تعزیرات پاکستان کی دفعات 302 اور 109 جبکہ اے ٹی اے کی دفعہ 7 کے تحت فرد جرم عائد کی گئی۔

طفیل ضیا پر مرکزی ملزم کو پستول فراہم کرنے جبکہ وسیع اللہ پر پستول نوجوان قاتل کے حوالے کرنے کے لیے طفیل ضیا کو دینے پر فرد جرم عائد کی گئی۔

خیال رہے کہ جووینائل ملزم کو 29 جولائی کو جوڈیشل کمپلیکس میں ایک امریکی شہری طاہر احمد نسیم کے قتل کے فوری بعد حراست میں لیا گیا تھا جبکہ وکیل طفیل ضیا کو جوڈیشل کمپلیکس کے اندر پستول لانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔

اس کے علاوہ 15 ستمبر کو انسداد دہشت گردی عدالت کی جانب سے ضمانت قبل از گرفتاری مسترد ہونے کے بعد مولوی وسیع اللہ کو پولیس نے حراست میں لیا تھا۔

وسیع اللہ جو سفید دہری علاقے کا رہائشی ہیں انہوں نے 18 ستمبر کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے جرم کا اعتراف بھی کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ تینوں ملزمان نے پلان کو انجام دینے سے قبل طفیل ضیا کے دفتر میں توہین مذہب کے ملزم طاہر نسیم کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

یہ بھی پڑھیں: انسداد دہشتگردی عدالت نے توہین مذہب کے ملزم کے قتل کیس کا ریکارڈ طلب کرلیا

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ 17 ہزار روپے کی ادائیگی کے بعد ملزم کو پستول ملا تھا جبکہ طفیل ضیا کو اسے قتل کے لیے جوڈیشل کمپلیکس کے اندر لے جانے کا ٹاسک دیا تھا۔

مولوی وسیع اللہ کا مزید کہنا تھا کہ قتل کے دن طفیل ضیا پستول عمارت کے اندر لے کر گیا اور اسے واش روم کے اندر مشتبہ نوجوان قاتل کے حوالے کیا، جس نے طاہر نسیم کو کمرہ عدالت میں قتل کیا۔

ملزم طفیل ضیا ایک جونیئر وکیل ہے جو مرنے والے طاہر نسیم کے ٹرائل میں شکایت گزار ملک اویس کی نمائندگی کررہا تھا جبکہ شکایت کنندہ نوشہرہ کا رہائشی ہے اور وہ اسلام آباد کے مدرسے میں پڑھتا ہے۔

خیال رہے کہ مرنے والے طاہر نسیم کے خلاف تھانہ سربند میں 25 اپریل 2018 کو تعزیرات پاکستان کی دفعہ 153 اے، 295 اے، 295 بی، 295 سی اور 298 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

نیشنل ٹی20 کپ پر بکیز کا حملہ، ایک کھلاڑی سے رابطہ

حکومت عدالتی کمیشن سے تعاون نہیں کررہی ہے، پی ٹی آئی اقلیتی رکن اسمبلی

حکومت نے اپوزیشن کو 'شرائط و ضوابط' کے ساتھ ریلی کی اجازت دے دی