پاکستان

حکومت نے اپوزیشن کو 'شرائط و ضوابط' کے ساتھ ریلی کی اجازت دے دی

جلسے کے شرکا کو بغیر ماسک کے داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی اور سب کو ایک دوسرے سے 3 سے 6 فٹ کے فاصلے پر بٹھایا جائے گا،ڈپٹی کمشنر
|

حکومت پنجاب نے جمعرات کو 16 اکتوبر (آئندہ روز) گوجرانوالہ کے جناح اسٹیڈیم میں ریلی کے انعقاد کے لیے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کو چند شرائط و ضوابط کے ساتھ اجازت دے دی۔

واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی زیر قیادت حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرنے والی پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کا یہ پہلا عوامی جلسہ ہوگا۔

گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر سہیل اشرف کی جانب سے 15 اکتوبر کو جاری کردہ ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ جلسے کے تمام شرکا کو بغیر ماسک کے جلسہ گاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوگی اور ہر ایک کو ایک دوسرے سے تین سے چھ فٹ کے فاصلے پر بٹھایا جائے گا۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ پولیس ریلی میں کھڑی کسی بھی گاڑی کو حفاظتی مقاصد کے لیے چیک کر سکتی ہے۔

مزید پڑھیں: بغاوت کے مقدمے میں نواز شریف کے سوا مسلم لیگ (ن) کی تمام قیادت ’بے قصور‘ قرار

ان کا کہنا تھا کہ ’منتظمین پنڈال میں نظم و ضبط کو یقینی بنائیں گے اور عوامی نظم و ضبط کی بحالی کے لیے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے تعاون کریں گے‘۔

نوٹیفکیشن میں یہ بھی کہا گیا کہ کسی بھی کالعدم تنظیم سے تعلق رکھنے والے یا مجرم قرار پائے جانے والے فرد کو ریلی میں حصہ لینے یا عوام سے خطاب کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔

دریں اثنا مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے اعلان کیا کہ پارٹی کے قائد نواز شریف، جنہیں ایوین فیلڈ اور العزیزیہ ملز ریفرنسز میں سزا سنائی گئی ہے اور اسلام آباد ہائیکورٹ کے ذریعہ مجرم قرار دیا گیا ہے، ویڈیو لنک کے ذریعے لندن سے گوجرانوالہ ریلی سے خطاب کریں گے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان جاری کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’نوازشریف گوجرانوالہ جلسے سے خطاب کریں گے، انشاء اللہ! انتظامات کیے جارہے ہیں کیا لمحہ ہوگا!‘

حکومت نے اس تقریب میں آئینی اداروں، مسلح افواج اور عدلیہ کے خلاف تقاریر کے علاوہ ’ریاست مخالف/قابل اعتراض/اشتعال انگیز نعروں‘ پر بھی سختی سے پابندی عائد کی ہے۔

نوٹس میں لکھا گیا کہ ’کسی بھی شرائط و ضوابط کی خلاف ورزی کی صورت میں منتظمین کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا اور این او سی/اجازت نامہ فوری طور پر منسوخ کردیا جائے گا‘۔

اپوزیشن کی جانب سے حکومت کو بے دخل کرنے کے لیے کوششیں تیز کرنے کے بعد پی ڈی ایم کی جانب سے گوجرانوالہ کا جلسہ ملک بھر میں پہلا جلسہ ہوگا، کل کی ریلی میں مسلم لیگ (ن) کی مریم نواز، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جے یو آئی (ف) کے مولانا فضل الرحمٰن سمیت بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنما شریک ہوں گے‘۔

مریم نواز گوجرانوالہ پہنچنے کے لیے شیڈول اپنے پارٹی کارواں کی قیادت کریں گی تاہم مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ رائیونڈ میں کنٹینرز رکھے جانے سے پارٹی کو ان کی روانگی سے متعلق حکمت عملی پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور: نواز شریف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ

مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما نے ڈان کو بتایا کہ ’حکومت کے ارادوں کو دیکھ کر ہم مریم نواز کے گوجرانوالہ کے لیے جاتی عمرہ رائیونڈ سے روانگی کے منصوبے پر نظر ثانی کررہے ہیں‘۔

دوسری جانب پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمن جمعہ کو جامعہ اشرفیہ مدرسہ فیروز پور روڈ سے جلسے میں گوجرانوالہ کے لیے روانہ ہوں گے۔

خیال رہے کہ رواں ہفتے کے آغاز میں وزیر اعظم عمران خان نے پی ڈی ایم کو گوجرانوالہ میں ایک ریلی نکالنے کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس سے لوگوں کو خود ہی فیصلہ کرنے کی اجازت ہوگی کہ اپوزیشن کتنی ’مضبوط‘ ہے۔

انہوں نے اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک سے نمٹنے کے لیے تشکیل دی جانے والی خصوصی کمیٹی کے اجلاس کے دوران متعلقہ حکام کو ہدایت کی تھی کہ وہ عوامی اجتماع کی اجازت دیں۔

تاہم اجلاس میں اصرار کیا گیا کہ منتظمین کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) پر عمل کریں کیوں کہ ملک میں کورونا وائرس کے کیسز میں دوبارہ اضافہ ہورہا ہے۔

اجلاس میں شریک ایک ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیر اعظم نے مشترکہ اپوزیشن کو ’ڈاکوؤں کا گروہ‘ قرار دیا جو اپنی بدعنوانی چھپانے کے لیے حکومت مخالف مہم کا آغاز کر رہا ہے انہوں نے مزید کہا کہ عوام اپوزیشن کا خود ہی ’طاقت کا مظاہرہ‘ دیکھے گی۔

بغاوت کا مقدمہ

واضح رہے کہ پیر کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت بشمول آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

شکایت کنندہ نے الزام لگایا تھا کہ سابق وزیراعظم نے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس اور اپنی جماعت کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے بالترتیب 20 ستمبر اور یکم اکتوبر کو کیے گئے خطاب میں ریاست، اس کے اداروں اور قوم کے خلاف ’نفرت انگیز تقاریر‘ کیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ان اجلاسوں میں شریک پارٹی رہنماؤں نے نواز شریف کی تقاریر کی ہاتھ اٹھا کر تائید کی تھی۔

مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف مقدمہ ریاست نہیں ایک شہری کی درخواست پر درج کیا، پولیس

شکایت کنندہ نے کہا تھا کہ ان اجلاسوں میں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی جانب سے کیے گئے خطابات کا مقصد بھارت کی پالیسی کی تائید کرنا تھا تاکہ کو ایک ’روگ ریاست‘ قرار دیا جائے اور اس کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں ہی رہے۔

یہ ایف آئی آر پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (2016) کی دفعہ 10 اور تعزیرات پاکستان کی دفعات 124 اے (بغاوت)، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 123 اے ( ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 ( کسی بھی قانونی طاقت کے استعمال کو روکنے کے مقصد کے ساتھ صدر، گورنر، وغیرہ پر حملہ کرنا) اور 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) کے تحت درج کی گئی تھی۔

ایف آئی آر کے مطابق نواز شریف نے بیرون ملک (لندن) سے میڈیا کے ذریعے اپنے پارٹی کے رہنماؤں، ریاستی اداروں اور قوم کو پاکستان کے خلاف اکسایا۔

تاہم بعدازاں پولیس نے سوائے نواز شریف کے مسلم لیگ (ن) کی تمام سینئر قیادت کو بے گناہ قرار دیا تھا اور ایف آئی آر سے پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی چار شقیں بھی ختم کردی تھیں۔

پی ڈی ایم کیا ہے؟

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، 20 ستمبر کو اپوزیشن کی کثیر الجہتی کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والی 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو رواں ماہ سے شروع ہونے والے ’ایکشن پلان‘ کے تحت تین مرحلہ پر حکومت مخالف تحریک چلانے کے ذریعے حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

ایکشن پلان کے تحت پی ڈی ایم نے رواں ماہ سے ملک گیر عوامی جلسوں، احتجاجی مظاہرے، دسمبر میں ریلیاں اور جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف ایک ’فیصلہ کن لانگ مارچ‘ کرنا ہے۔

مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے پہلے صدر ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف سینئر نائب صدر ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اس کے سیکرٹری جنرل ہیں۔

قصور: 48 گھنٹے میں 4 خواتین، 3 کم عمر لڑکوں سے ’ریپ‘ کے مقدمات درج

آٹا، چینی کی قیمتیں نہیں بڑھنی چاہیے تھیں لیکن بڑھی ہیں، وزیر خارجہ

جی-20 نے غریب ممالک کی قرضوں کی ادائیگی مزید 6 ماہ کیلئے مؤخر کردی