چیف جسٹس کا ہل اسٹیشنز پر درختوں کی کٹائی پر تحفظات کا اظہار
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے صوبائی محکمہ جنگلات اور آبپاشی سے اپنے متعلقہ صوبوں میں زیر زمین آبی ذخائر اور زمین کو جنگلات بنانے سے متعلق رپورٹس طلب کرلیں۔
ڈان اخبار کی رپوٹ کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے صوبوں کے محکمہ آبپاشی اور جنگلات کے سیکریٹریز کو آئندہ سماعت پر طلب کرلیا۔
مزید یہ کہ سپریم کورٹ نے تجویز دی کہ دریا اور نہروں کے کنارے مضبوط کرنے کے لیے 6 فٹ تک لمبائی رکھنے والے درخت لگائے جانے چاہئیں۔
مزید پڑھیں: جنگلات کی زمین قبضہ مافیا سے حاصل کی جائے، سپریم کورٹ کا حکومت سندھ کو حکم
اس موقع پر پنجاب کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے 2 لاکھ درخت لگائے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے ان اعداد و شمار کو ناکافی اور غیر مؤثر قرار دیا۔
دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے وفاقی حکومت کے بلین ٹری سونامی منصوبے اور اثرات سے متعلق سوال کیا، ساتھ ہی جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیے کہ جنگلات کی زمین کو درخت لگانے کے نام پر نجی لوگوں کو الاٹ کیا گیا ہے۔
عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس کی جانب سے وادی کمراٹ، نتھیاگلی اور مری جیسے مقامات پر ہل اسٹیشز میں درختوں کی بڑے پیمانے پر کٹائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان علاقوں میں سیاحت کو ختم کردے گی اور ملک بے جان ہوجائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: بحریہ ٹاؤن بھی محکمہ جنگلات کی زمین پر قابض ہے، چیف جسٹس
ان کا مزید کہنا تھا کہ جنگلات کی کٹائی سے موسمیاتی تبدیلیوں اور درجہ حرارت میں اضافے کا خدشہ ہے جبکہ یہ کہ پہاڑوں پر برف باری بھی کم ہوجائے گی۔
اس دوران سندھ کے محکمہ آبپاشی نے عدالت کو بتایا کہ صوبے میں دریا اور نہروں کے کنارے درخت لگائے گئے ہیں جس پر چیف جسٹس نے اس معلومات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اس بات کی نشاندہی کی کہ عدالت کی ہدایات کی روشنی میں اب تک کوئی درخت نہیں لگائے گئے، انہوں نے یاد دلایا کہ نہروں اور دریاؤں کے ساتھ گھنے جنگلات ہوا کرتے تھے جو گزشتہ چند دہائیوں میں غائب ہوچکے ہیں۔
سماعت کے دوران ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل بلوچستان نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت کی جانب سے اب تک 40 ہزار درخت لگائے جاچکے ہیں اور اس سلسلے میں ایک رپورٹ بھی معائنے کے لیے عدالت میں پیش کی جاچکی ہے۔
مزید پڑھیں: جنگلات کی 21ہزار ایکڑ کی الاٹمنٹ پر حکم امتناع
اس پر عدالت عظمیٰ نے صوبائی حکومتوں کو خبردار کیا کہ درخت ’صرف کاغذوں‘ پر نہ لگائیں بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے ماحول کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے دریا اور نہروں سے جڑی زمینوں پر اصل میں پودے لگائیں۔
علاوہ ازیں عدالت نے اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل سے بھی وفاقی دارالحکومت کے آبی ذخائر سے متعلق رپوٹ طلب کرلی، جس کے بعد کیس کی سماعت کو آئندہ 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کردیا گیا۔
یہ خبر 15 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔