ملزم پکڑنا پولیس کی ذمہ داری ہے، اس پر انعام کیسا؟ لاہور ہائیکورٹ
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ قاسم خان نے ریمارکس دیے ہیں کہ ایک ملزم کی گرفتاری پر پولیس کا انعام دینا حیران کن ہے، ملزم پکڑنا پولیس کی ذمہ داری ہے اس پر انعام کیسا۔
عدالت عالیہ میں جسٹس قاسم خان نے متروکہ وقف املاک بورڈ کی اراضی پر پولیس قبضے کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس پنجاب انعام غنی بھی پیش ہوئے۔
دوران سماعت موٹروے زیادتی کیس کے مرکزی ملزم عابد ملہی کی گرفتاری پر انعام کا معاملہ آیا جس پر عدالت عالیہ کے چیف جسٹس نے حیرت کا اظہار کیا کہ ایک ملزم کو گرفتار کرنے پر پولیس کی جانب سے انعام دینا حیران کن ہے، ملزم کو پکڑنا پولیس کی ذمہ داری ہے، اس پر انعام کیسا؟، اب پولیس افسر انعام کا انتظار کرے پھر ملزم پکڑے۔
مزید پڑھیں: موٹروے ریپ کیس: مرکزی ملزم عابد کی اہلیہ زیر حراست، ابتدائی بیان ریکارڈ
انہوں نے کہا کہ یہ پنجاب حکومت نے نیا طریقہ ڈھونڈ لیا ہے، کیا پولیس کا کام ملزموں کو پکڑنا نہیں؟ پولیس اہلکار اگر ملزموں کو نہیں پکڑیں گے تو کیا کریں گے؟
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ کا کہنا تھا کہ ملزم پکڑا نہیں جاتا اور پولیس والے قبضے کر رہے ہیں، یہ بتائیں کہ پولیس نے قبضہ کس طرح کیا ہے، پولیس کی اندھیر نگری ہے، پولیس قانون کی خلاف ورزی کرے گی تو وردیاں اتروا کر گھر بھیج دوں گا۔
خیال رہے کہ پنجاب پولیس نے موٹروے گینگ ریپ کیس کے مرکزی ملزم عابد کو پیر کو لاہور کی کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (سی آئی اے) نے صوبائی دارالحکومت سے 33 کلومیٹر دور مانگا منڈی کے علاقے سے عابد ملہی کو گرفتار کیاتھا۔
یہ گرفتاری پولیس کی جانب سے عابد ملہی کے والدین، بھائیوں اور بیوی کو چھوڑنے اور ملزم کو پکڑنے کے لیے انہیں پرانے موبائل فون سمز استعمال کرنے کی اجازت دینے کے بعد عمل میں آئی تھی۔
دوسری جانب نجی چینل جیو نیوز کی رپورٹ کے مطابق لاہور پولیس کے ترجمان کا کہنا تھا کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار اور انسپکٹر جنرل پولیس انعام غنی نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم اور کیس میں شامل سی آئی اے افسران کے لیے انعام کا اعلان کیا تھا۔
تاہم ملزم کے والد کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا تھا کہ ان کے بیٹے نے پولیس کو خود گرفتاری دی۔
اس حوالے سے جب آج عدالت میں آنے والے انسپکٹر جنرل سے صحافیوں نے سوال کیا تو انعام غنی بغیر کسی سوال کا جواب دیے وہاں سے چلے گئے۔
خیال رہے کہ گزشتہ روز عابد ملہی کے والد اکبر علی کا ایک بیان سامنے آیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ واقعے کے ایک ماہ بعد عابد نے مجھ سے رابطہ کیا، جس پر میں نے اسے کہا کہ واپس آجاؤ جس پر وہ ساڑھے 6 بجے گھر آیا۔
انہوں نے کہا تھا کہ میں نے خود خالد بٹ کو بلایا اور عابد کو ان کے حوالے کردیا، تاہم میری حکام سے گزارش ہے کہ جو ہمارے خاندان کے لوگ اور عورتوں کو حراست میں رکھا ہے انہیں چھوڑ دیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا
خیال رہے کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے کے پر گجرپورہ کے علاقے میں مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ موٹروے پر مدد کی منتظر تھیں۔
واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
بعد ازاں اس واقعے میں ملوث ایک ملزم کو پولیس نے پہلے گرفتار کیا تھا تاہم مرکزی ملزم عابد ملہی کی گرفتاری ایک ماہ سے زائد عرصے بعد عمل میں آئی تھی۔
اضافی رپورٹنگ: امتیاز مغیری