پاکستان

سی سی پی او لاہور کے خلاف مقدمہ درج کرنے کی درخواست پر تحقیقات کا آغاز

آئی جی انعام غنی کی ہدایت پر انکوائری شروع کی گئی، سی سی پی او کے اسٹاف سمیت 4 پولیس عہدیداروں کے بیانات ریکارڈ کیے گئے،رپورٹ

لاہور: پولیس کی انٹرنل اکاؤنٹیبلٹی برانچ (آئی اے بی) کے ایڈیشنل انسپکٹر جنرل غلام رسول زاہد نے لاہور کیپیٹل سٹی پولیس افسر عمر شیخ کے خلاف مجرمانہ مقدمے کے اندراج کے لیے دائر درخواست پر تحقیقات (انکوائری) کا آغاز کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ تحقیقات انسپکٹر جنرل آف پولیس (آئی جی پی) پنجاب انعام غنی کی ہدایت پر شروع کی گئی۔

واضح رہے کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج عارف حمید نے اس وقت تحقیقات کا حکم دیا تھا جب گجرپورہ پولیس کے سابق ایس ایچ او سید احمد رضا جعفری نے اس شکایت کے ساتھ عدالت سے رجوع کیا تھا کہ لاہور پولیس کے حکام ان کی شکایات پر سی سی پی او لاہور کے خلاف مقدمہ درج نہیں کر رہے۔

مزید پڑھیں: سینئر پولیس افسران نے سی سی پی او کے خلاف 'مشترکہ بیان' جاری کردیا

منگل کو انکوائری افسر نے درخواست گزار اور سی سی پی او کے پرسنل اسٹاف افسر سمیت 4 پولیس عہدیداروں کے بیانات ریکارڈ کیے۔

انکوائری افسر نے درخواست گزار کے الزامات پر باضابطہ طور پر تحقیقات کا آغاز کیا اور ان کا بیان ریکارڈ کیا۔

اس کے علاوہ انہوں نے لاہور پولیس کے ایس پی لیگل شیخ آصف، سی سی پی او کے پرسنل اسٹاف افسر وحید اسحٰق اور ایس ایچ او تھانہ سول لائنز بابر اشرف انصاری کے بیانات بھی لیے۔

دوسری جانب آئی جی انعام غنی نے ڈان کو تصدیق کی کہ ’عدالتی حکم کی روشنی میں، میں نے ایڈیشنل آئی جی کی ذمہ داری لگائی کہ وہ سی سی پی او لاہور کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے انکوائری کا آغاز کریں‘۔

انہوں نے کہا کہ دونوں فریقین کو سننے کے بعد انکوائری رپورٹ کی روشنی میں کارروائی کی جائے گی۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کے سامنے اپنی درخواست میں شکایت کنندہ نے استدعا کی تھی کہ انہوں نے سی سی پی او لاہور کے خلاف مجرمانہ مقدمے کے اندارج کے لیے سول لائنز تھانے میں درخواست جمع کروائی تھی۔

انہوں نے کہا کہ لاہور پولیس حکام سی سی پی او کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کے پابند تھے لیکن انہوں نے ایسا کرنے سے منع کردیا۔

ساتھ ہی انہوں نے الزام لگایا کہ عمر شیخ انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ ان کے ساتھ بدتمیزی کی اور غیرقانونی ایف آئی آر درج کی۔

سید احمد رضا جعفری نے الزام لگایا کہ 14 ستمبر کو وہ، اسسٹنٹ سب انسپکٹرز (اے ایس آئیز) محمد عمران، شہزاد علی اور عمران کے ساتھ سی سی پی او کے سامنے پیش ہوئے، جنہوں نے بغیر کسی قانونی جواز اور تمام اخلاقیات کے خلاف ان سے بدتمیزی کرنا شروع کردی اور اپنے اسٹاف کو ہدایت کی کہ انہیں (رضا جعفری) کو عقوبت خانے لے کر جائیں اور اس وقت تک تشدد کریں جب تک یہ مر نہ جائے۔

انہوں نے مزید کہا کہ سی سی پی او کا اسٹاف انہیں سول لائنز تھانے لے گیا اور ان کے خلاف جھوٹی ایف آئی آر درج کرلی۔

لہٰذا درخواست گزار کے مطابق ’سی سی پی او عمر شیخ نے قابل دست اندازی جرم کیا ہے‘، اسی سلسلے میں سول لائنز تھانے میں سی سی پی او کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے لیے شکایت دی لیکن کچھ نہیں ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: سی سی پی او لاہور نے آئی جی کے 'اختیارات' کو چیلنج کرکے نیا 'پنڈورا بکس' کھول دیا

ادھر ایڈیشنل ڈسٹرک اینڈ سیشنز جج نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ درخواست گزار نے ملزم کے خلاف مختلف سنگین الزامات لگائے ہیں جبکہ ’ملزم ایک بہت اعلیٰ دفتر میں خدمات انجام دے رہا ہے اور حلف نامے کے ذریعے اس طرح کے الزامات کو ایک طرف نہیں کیا جاسکتا‘۔

ساتھ ہی عدالت نے معاملے کو آئی جی پی کو بھیجتے ہوئے ہدایت کی تھی کہ ایک سینئر پولیس افسر کے ذریعے انکوائری کرائیں۔

عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ اگر درخواست گزار کی جانب سے لگائے گئے الزامات ثابت ہوتے ہیں تو انتظامی یا قانونی طور پر آگے بڑھیں، اس کے بعد اس عدالت کی آگاہی کے ساتھ قانون کے مطابق سختی سے مزید آگے کی کارروائی کریں۔


یہ خبر 14 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

سندھ: ہیلتھ رسک الاؤنس کیلئے ڈاکٹروں، طبی عملے کا ہسپتالوں کی او پی ڈیز کا بائیکاٹ

پاکستان بھاری اکثریت سے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کا دوبارہ رکن منتخب

اپوزیشن نے پی آئی ڈی اے آرڈیننس کو ختم کرنے کیلئے سینیٹ میں قرارداد جمع کرادی