پاکستان

کے الیکٹرک کے سرمایہ کاروں پر تحفظات ہیں، لگتا ہے ان کے تانے بانے ممبئی سے نکلیں گے، چیف جسٹس

روز مجھے کالز، میسجز آتے ہیں کہ کراچی میں دن میں 3 مرتبہ بجلی جارہی ہے،جب کمپنی ممبئی سے کنٹرول ہوگی تو پھر ایسا ہی ہوگا، ریمارکس
|

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے واحد نجی ادارے کے الیکٹرک پر سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ کے الیکٹرک کے سرمایہ کاروں پر ہمیں تحفظات ہیں، خبروں میں آرہا ہے کہ کراچی کی کمپنی ممبئی سے کنٹرول کی جارہی ہے، یوں لگتا ہے کہ آخر میں اس کمپنی کے تانے بانے ممبئی سے نکلیں گے۔

سپریم کورٹ میں چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سندھ میں غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے خلاف ازخود نوٹس پر سماعت کی، اس دوران عدالت میں اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان، ایم ڈی کے الیکٹرک، نیپرا اور کے الیکٹرک کے وکلا و دیگر لوگ پیش ہوئے۔

اس دوران بجلی کی فراہمی سے متعلق رپورٹس پیش کی گئی، جسے مسترد کردیا گیا۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس نے کہا کہ ان رپورٹس میں کچھ بھی نہیں، کراچی میں بجلی کا مسئلہ جوں کا توں ہے، وفاقی حکومت اور نہ ہی صوبائی حکومت کچھ کر رہی ہے، فیڈریشن بھی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر رہی۔

مزید پڑھیں: کے-الیکٹرک کیخلاف اقدامات پر حکم امتناع خارج، نیپرا قانون کے سیکشن 26 پر عملدرآمد کا حکم

انہوں نے کہا کہ جس کی مرضی ہے حکومتی اداروں کا استحصال کرے کوئی روکنے والا نہیں، لوگوں کو ہائی جیک کیا ہوا ہے، حکومت میں صلاحیت ہی نہیں، حکومتی کمزوری کا سب ادارے فائدہ اٹھا رہے ہیں، دائیں اور بائیں ہر طرف سے حکومت کا استحصال کیا جارہا ہے۔

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نیپرا اور پاور ڈویژن کے تمام ملازمین کو فارغ کردیتے ہیں، ایسے ملازمین کے ہونے کا کوئی فائدہ ہی نہیں۔

انہوں نے کہا کہ کے الیکٹرک شہریوں کو رتی برابر بھی فائدہ نہیں دے رہی، این ٹی ڈی سی اور پی ٹی ڈی سی جیسے ادارے اربوں روپے لے کر صفر سروس دے رہے ہیں۔

کراچی کو بجلی فراہم کرنے والی واحد نجی کمپنی کے الیکٹرک پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ کے الیکٹرک والے لوگوں کو ہائی جیک کرکے ماسٹربن گئے ہیں، آج پھر بجلی کی قیمت بڑھا دی گئی۔

اس دوران چیف جسٹس نے کے الیکٹرک کے ایم ڈی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو پرانے ایم ڈی ہیں، آپ کو تو نکال دیا تھا، آپ کیسے آگئے، جس پر ایم ڈی نے جواب دیا کہ انہیں ابھی نہیں نکالا۔

عدالت میں سماعت کے موقع پر چیف جسٹس نے مزید کہا کہ کے الیکٹرک کو کنٹرول کون کرتا ہے، کتنے شیئر ہولڈرز ہیں۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے پوچھا کہ وہ 9 شیئر ہولڈرز کون ہیں جو فریق بننا چاہتے ہیں؟ یہ چیئرمین شان عشری کون ہے؟ کیا یہ پاکستانی ہے؟

اس پر شان عشری عدالت میں پیش ہوئے اور انہوں نے بتایا کہ ان کا پورا نام شان عباس عشری ہے۔

ساتھ ہی شان عشری نے کہا کہ میں پاکستانی ہوں، میری وفاداری پر شک نہ کریں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ پاکستان سے وفادار ہوتے تو کے الیکٹرک اور پاکستان کے عوام کا یہ حال نہ ہوتا۔

اس پر شان عشری نے جواب دیا کہ کے الیکٹرک میں سعودی عرب اور کویت سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے 400 ملین (40 کروڑ) ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے۔

ان کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کے الیکٹرک کے سرمایہ کاروں پر ہمیں تحفظات ہیں، اخباروں میں خبریں لگی ہیں کہ شرما ورما نام کے لوگ کے شیئر ہولڈرز ہیں، خبروں کے مطابق کراچی میں بجلی کی تقسیم ممبئی سے کنٹرول ہورہی ہے، کراچی میں کس کو کتنی بجلی ملے گی اس کا کنٹرول ممبئی سے چلایا جارہا ہے، یوں لگتا ہے کہ آخر میں اس کمپنی کے تانے بانے ممبئی سے نکلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ خاکروب کے مطابق کراچی اور بلوچستان میں بجلی ممبئی سے کنٹرول ہوتی ہے، آدھا کراچی رات کو اندھیرے میں ڈوبا ہوا ہوتا ہے، روز مجھے کالز، میسجز آتے ہیں کہ کراچی میں دن میں 3 مرتبہ بجلی جارہی ہے، جب کمپنی ممبئی سے کنٹرول ہوگی تو پھر ایسا ہی ہوگا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوگی، ان کی پشت پر کوئی اور ہے، کیوں نہ عدالتی حکم عدولی پر ایم ڈی کے الیکٹرک کو جیل بھیج دیں۔

اس پر وکیل کے الیکٹرک نے کہا کہ ممبئی کے شیئر ہولڈرز والی خبریں غلط ہیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے تو اخبار میں خبریں پڑھی ہیں، ہمیں سورس (ذرائع) کا نہیں پتا، اس پر وکیل کے الیکٹرک نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں شیئر ہولڈرز کی سیکیورٹی کلیئر ہے۔

وکیل کی بات پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کارپوریٹ معاملات الجھے ہوئے ہوتے ہیں، سامنے کوئی اور پیچھے کوئی اور ہوتا ہے، سارے عمل میں آخر میں فائدہ کوئی اور لے جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 'کراچی والے کے الیکٹرک کی اجارہ داری کا خمیازہ بھگت رہے، ان پر بھاری جرمانہ ہونا چاہیے'

دوران ریمارکس چیف جسٹس نے کہا کہ کے الیکٹرک والے ڈیفالٹر ہیں ان کو جیل بھیجنا چاہیے، بجلی کی فراہمی بنیادی حق ہے، کے الیکٹرک والوں پر بھاری جرمانہ عائد کر سکتے ہیں۔

اس پر وکیل نے جواب دیا کہ جون اور جولائی میں آئل کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے بجلی کی فراہمی متاثر ہوئی۔

جس پر چیف جسٹس نے عدالت میں موجود اٹارنی جنرل سے مکالمہ کیا کہ آپ کے محکموں کا برا حال ہے، ایسی صورت میں ملازمین کو تنخواہ کیوں دی جائے، پہلے ایک پاور ڈویژن تھا اب اس کے دس ٹکڑے کر دیے گئے، ایک سیکریٹری کی جگہ 25 لوگ گریڈ بائیس کے بٹھا دیے گئے۔

انہوں نے کہا کہ صرف کے الیکٹرک نہیں حکومت کے ہر ادارے کا یہی حال ہے، یہی صورتحال رہی تو پورے ملک میں بجلی بند ہوجائے گی۔

بعد ازاں عدالت نے وفاقی حکومت سے 2 ہفتوں میں پریزنٹیشن اور نیپرا سے 4 ہفتوں میں رپورٹ طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کو 4 ہفتوں کے لیے ملتوی کردیا

آمدن سے زائد اثاثے: کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کی ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست

پرائس مانیٹرنگ کمیٹی نے قیمتوں میں اضافے کی وجہ طلب و رسد کے فرق کو قرار دے دیا

دیگر ممالک کے برعکس پاکستان میں ڈیٹنگ ایپس استعمال کرنا مشکل کیوں؟