پاکستان

صحرائے چولستان میں خلیجی ملک سے لائے گئے 1700 تلور چھوڑ دیے گئے

ان پرندوں کی افزائشِ نسل اور دیکھ بھال متحدہ عرب امارات میں آئی ایف ایچ سی کی سہولت گاہ میں کی گئی تھی، رپورٹ
|

کراچی: پرندوں کی نایاب قسم تلور کا تیسرا جھنڈ صحرائے چولستان میں چھوڑ دیا گیا جس کی افزائشِ نسل خلیجی ریاست میں پنجروں میں کی گئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا کہ ان نایاب پرندوں کو تلور کے تحٖفظ کے لیے قائم بین الاقوامی فنڈ یعنی انٹرنیشنل فنڈ فار ہوبار کنزرویشن (آئی ایف ایچ سی) ابوظبی نے پنجروں میں پروان چڑھایا۔

بعدازاں ان پرندوں کو آئی ایف ایچ سی، ایک مقامی این جی اور ہوبارہ فاؤنڈیشن انٹرنیشنل پاکستان نے مشترکہ طور پر پنجاب کے جنوبی صحرا میں آزاد کیا۔

ایچ ایف آئی پی کے سربراہ بریگیڈیئر (ر) مختار نے کہا کہ ان 1700 پرندوں کی افزائشِ نسل اور دیکھ بھال متحدہ عرب امارات میں آئی ایف ایچ سی کی اپنی سہولت گاہ میں کی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: تلور کے شکار کے اجازت نامے دینے سے پاکستان کا 'جی ایس پی پلس' اسٹیٹس خطرے میں

انہوں نے مزید بتایا کہ آئی ایف ایچ سی کے نمائندے فلپ گیرارڈ مارشلان پرندوں کو خصوصی پرواز کے ذریعے پاکستان لائے جنہیں قرنطینہ میں رکھنے اور معائنہ کرنے کے بعد جانوروں کی صحت کے محکمے نے سرٹیفکیٹ جاری کیا۔

بریگیڈیئر (ر) مختار نے بتایا کہ پرندوں کی اس نایاب نسل کو یہاں لانے سے قبل تمام دستاویزات متحدہ عرب امارات اور پاکستان میں مکمل کی گئیں جن میں پرندوں اور جانوروں کی نایاب اقسام سے متعلق کنونشن کے تحت درآمدر اور برآمد کے اجازت نامے بھی شامل ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ان 1700 کے علاوہ 500 اور ایک ہزار پرندے آئی ایف ایچ سی کے پنجروں میں پروان چڑھائے گئے جنہیں رواں برس مارچ اور ستمبر میں چولستان میں رہا کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایچ ایف آئی پی گزشتہ کچھ دہائیوں سے پاک فوج کے اشتراک کے ساتھ چولستان میں حیاتیاتی مسکن کی بحالی کے لیے فضائی طور پر صحرائی پودوں کے بیجوں کا چھڑکاؤ کررہی ہے۔

مزید پڑھیں: عرب شاہی خاندانوں کو تلور کے شکار کیلئے مزید 13 اجازت نامے

خیال رہے کہ ہر سال خلیجی ممالک سے بڑی تعداد میں شاہی خاندانوں سے تعلق رکھنے والے افراد تلور کے شکار کے لیے پاکستان آتے ہیں، وسطی ایشیائی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے پرندے تلور، موسمِ سرما میں سردی سے بچنے کے لیے جنوب کی جانب ہجرت کر جاتے ہیں۔

قبل ازیں یہ پرندے ہجرت کے دوران جزیرہ نما عرب کے اوپر پرواز کرتے تھے لیکن عرب شکاریوں کے بے انتہا شکار کے باعث یہ وہاں نہیں جاتا اور موسمِ سرما میں پاکستان میں ہی قیام کرتے ہیں۔

اس کی خصوصی حیثیت اور تیزی سے گھٹتی آبادی کی وجہ سے اسے نہ صرف عالمی سطح پر بلکہ پاکستانی قوانین کے تحت بھی تحفظ حاصل ہے۔

اس کے باوجود حکومت عرب ریاستوں کے شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے افراد کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے شکار کے خصوصی اجازت نامے جاری کرتی ہے لیکن پاکستانی شکاریوں کو اس کے شکار کی اجازت نہیں۔