برطانیہ کی ایکسٹر یونیورسٹی کے اس Tرائل میں ایک ہزار افراد کو شامل کیا جارہا ہے جن میں اکثریت طبی عملے کی ہوگی۔
بیسیلس کالمیٹی گیورن (بی سی جی) نامی ویکسین کو ٹی بی سے بچائو کے لیے سو سال سے دنیا کے مختلف حصوں میں استعمال کیا جارہا ہے۔
ویکسین اب بھی ترقی پذیر ممالک جیسے پاکستان میں عام استعمال ہوتی ہے اور سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ یہ ٹی بی کی روک تھام کے ساتھ ساتھ یہ دیگر امراض کے حوالے سے بھی مفید ثابت ہورہی ہے۔
یہ ویکسین نومولود بچوں کی اموات کا باعث بننے والی مختلف وجوہات کی روک تھام میں بھی مدد دے رہی ہے اور اس سے نظام تنفس کے انفیکشنز کا خطرہ بھی کم کرتی ہے۔
عام طر پر ویکسینز کو کسی مخصوص بیماری سے تحفظ کے لیے مدافعتی نظام کو ایک مخصوص انداز سے تربیت فراہم کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔
مگر اس عمل کے نتیجے میں مدافعتی نظام میں تبدیلیاں ہوتی ہیں اور وہ دیگر بیماریوں کے خلاف بھی کردار ادا کرنے لگتی ہیں اور سائنسدانوں کو توقع ہے ایک صدی پرانی یہ ویکسین کورونا وائرس کے خلاف جسم کو تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔
2011 میں مغربی افریقی ملک گنی بسائو میں ڈھائی ہزار بچوں پر ہونے والی ایک تحقیق میں اس ویکسین کے فوائد پر روشنی ڈالی گئی تھی۔
تحقیق کے مطابق اس ویکسین کے نتیجے میں کم وزن کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی اموات کی شرح میں ڈرامائی کمی آئی۔
اس کی فالو اپ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس ویکسین کے نتیجے میں پیدائشی طور پر کم وزن کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں میں وبائی امراض سے اموات کی شرح 40 فیصد سے زیادہ کم ہوگئی۔
ایکسٹر یونیورسٹی کے پروفیسر جان کیمبل نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ویکسین عالمی سطح پر اہم ثابت ہوسکتی ہے۔
اہوں نے کہا 'اگرچہ ہمیں نہیں لگتا کہ یہ کووڈ سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے، مگر یہ کسی حد تک اس بیمااری سے بچا کر کووڈ ویکسینز اور علاج کی تیاری تک لوگوں کی مدد کرسکتی ہے'۔
برطانیہ میں اس ویکسین پر ٹرائل بین الاقوامی تحقیق کا حصہ ہے جو آسٹریلیا، نیدرلینڈز، اسپین اور برازیل میں جاری ہے جس کے لیے 10 ہزار افراد کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔
تحقیق میں طبی ورکرز پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کیونکہ وہ کورونا وائرس کا زیادہ سامنا کرتے ہیں تو محققین کو جلد علم ہوجائے گا کہ ویکسین کتنی موثر ہے۔
ڈاکٹر سام ہلٹن برطانوی ٹرائل میں شامل ہونے والے رضاکاروں میں سےس ایک ہیں اور ان کا کہنا تھا 'یہ ایک اچھا خیال ہے کہ بی سی جی کووڈ 19 کے شکار ہونے پر آپ کو زیادہ بیمار نہیں ہونے دے گی، تو میں اسے اپنے لیے تحفظ کا ذریعہ سمجھتا ہوں، کیونکہ مجھے سردیوں میں بھی اپنا کام کرنا ہوگا'۔
حال ہی میں عالمی ادارہ صحت کے زیرتحت ہونے والے ایک تجزیے میں بتایا گیا کہ متعدد اقسام کے انفیکشنز کے خلاف اس ویکسین کے اثرات پر مزید ٹرائلز ہونے چاہیے۔
تاہم بی سی جی ویکسین طویل المعیاد حل نہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس ویکسین کا استعمال برسوں سے نہیں ہورہا جبکہ بچپن میں جن لوگوں کو اس کا استعمال کرایا جاتا ہے، اس کا اثر ایک مخصوص عمر میں کم ہوجاتا ہے۔
مزید براں یہ ویکسین مدافعتی نظام کو تربیت دے کر ایسے اینٹی باڈیز اور خون کے سفید خلیاات تیار کرنے میں مدد نہیں دیتی جو کورونا وائرس کو شناخت کرکے اس کے خلاف لڑسکیں۔