پاکستان

بغاوت کے مقدمے میں نواز شریف کے سوا مسلم لیگ (ن) کی تمام قیادت ’بے قصور‘ قرار

اب صرف نواز شریف اکیلے بغاوت کےمقدمے کا سامنا کریں گے، پولیس نے مقدمے سے 4 دفعات کو بھی ختم کردیا، رپورٹ

لاہور: پولیس نے حال ہی میں شاہدرہ تھانے میں درج ہونے والے بغاوت کے مقدمے میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے سوا تمام مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو بے قصور قرار دے دیا اور فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) سے تعزیرات پاکستان کی 4 دفعات کو بھی ختم کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ پیش رفت کیس کی تحقیقات کرنے والی خصوصی ٹیم اور لاہور کے کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) عمر شیخ کے درمیان ہونے والے ایک اجلاس کے بعد سامنے آئی۔

واضح رہے کہ پیر کو سابق وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت بشمول آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجا فاروق حیدر کے خلاف بغاوت کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

تاہم وفاقی حکومت نے خود کو اس اقدام سے دور کیا تھا کیونکہ وزیراعظم عمران خان نے مذکورہ معاملے پر ناراضی کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑھیں: لاہور: نواز شریف کے خلاف بغاوت کا مقدمہ

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ایکٹوسٹ اور مقامی رہائشی بدر رشید کی شکایت پر سابق وزیراعظم نواز شریف کے علاوہ ان کی بیٹی مریم نواز اور 41 مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنماؤں کو مقدمے میں نامزد کیا گیا تھا۔

شکایت کنندہ نے الزام لگایا تھا کہ سابق وزیراعظم نے اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس اور اپنی جماعت کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی اور سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے بالترتیب 20 ستمبر اور یکم اکتوبر کو کیے گئے خطاب میں ریاست، اس کے اداروں اور قوم کے خلاف ’نفرت انگیز تقاریر‘ کیں۔

انہوں نے کہا تھا کہ ان اجلاسوں میں شریک پارٹی رہنماؤں نے نواز شریف کی تقاریر کی ہاتھ اٹھا کر تائید کی تھی۔

شکایت کنندہ نے کہا تھا کہ ان اجلاسوں میں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں کی جانب سے کیے گئے خطابات کا مقصد بھارت کی پالیسی کی تائید کرنا تھا تاکہ کو ایک ’روگ ریاست‘ قرار دیا جائے اور اس کا نام فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں ہی رہے۔

یہ ایف آئی آر پاکستان الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (2016) کی دفعہ 10 اور تعزیرات پاکستان کی دفعات 124 اے (بغاوت)، 121 اے (پاکستان کے خلاف جنگ چھیڑنے کی سازش)، 120، 120 بی (مجرمانہ سازش)، 123 اے ( ملک کی تشکیل کی مذمت اور اس کے وقار کو ختم کرنے کی حمایت)، 124 ( کسی بھی قانونی طاقت کے استعمال کو روکنے کے مقصد کے ساتھ صدر، گورنر، وغیرہ پر حملہ کرنا) اور 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کا فروغ) کے تحت درج کی گئی تھی۔

ایف آئی آر کے مطابق نواز شریف نے بیرون ملک (لندن) سے میڈیا کے ذریعے اپنے پارٹی کے رہنماؤں، ریاستی اداروں اور قوم کو پاکستان کے خلاف اکسایا۔

یہ بھی پڑھیں: نواز شریف کے خلاف مقدمہ ریاست نہیں ایک شہری کی درخواست پر درج کیا، پولیس

علاوہ ازیں رات گئے جاری بیان میں پولیس چیف کا کہنا تھا کہ خصوصی تحقیقاتی ٹیم نے کیس کی اچھی طرح سے تحقیقات کی اور تمام سیاست دانوں بشمول آزاد کشمیر کے وزیراعظم کو ’بے قصور‘ پایا۔

بیان میں کہا گیا کہ ٹیم نے شکایت کنندہ کے تحریری اور ویڈیو بیانات ریکارڈ کیے اور اس نتیجے پر پہنچی کہ بغاوت کیس میں نامزد سیاست دانوں نے پارٹی کے 2 اجلاسوں میں نواز شریف کی نفرت انگیز تقاریر کی تائید نہیں کی تھی۔

نتیجتاً پولیس نے نواز شریف کے سوا (نامزد سیاست دانوں) کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

پولیس نے مزید کہا کہ تحقیقات کی روشنی میں ایف آئی آر سے تعزیرات پاکستان کی دفعہ 121 اے، 123 اے، 124 اور 153 اے کو ختم کردیا گیا۔


یہ خبر 11 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

'ایک وزیر نے لندن فون کر کے کہا میرے ساتھ 12 ایم این ایز ہیں، کچھ کریں'

وزیرستان: دہشت گردوں کے حملے میں 2 فوجی جوان شہید

درمیانی عمر میں بچے کی پیدائش سے ماں پر مرتب اثرات