پاکستان

آمدن سے زائد اثاثے: سی سی پی او لاہور نے 197 اہلکاروں و افسران کے ریکارڈ طلب کرلیے

انٹیلی جنس بیورو کو لکھے گئے خط میں ان تمام افسران و اہلکاروں کے خفیہ ریکارڈ طلب کیے گئے ہیں۔

پاک فوج کی طرز پر پولیس میں کورٹ مارشل متعارف کرائے جانے کی تجویز کے ایک دن بعد ہی کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور (سی سی پی او) نے آمدن سے زائد اثاثہ جات کے شبہات پر شہر میں انٹیلی جنس بیورو (آئی بی) کے لیے خدمات انجام دینے والے 197 پولیس اہلکاروں و افسران کے خفیہ ریکارڈ طلب کر لیے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق آئی بی پنجاب کے جوائنٹ ڈائریکٹر کو لکھے گئے خط میں سی سی پی او عمر شیخ نے افسران کی ایک فہرست ان کی پوسٹنگ اور عہدے کے ساتھ فراہم کی، یہ ریکارڈ تین اقسام میں طلب کیے گئے ہیں جس میں جائیداد/اثاثہ جات، تنخواہ کے علاوہ آمدن کے ذرائع اور معاشرے میں ساکھ کی بات کی گئی ہے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ یہ درخواست کی جاتی ہے کہ مذکورہ بالا نکات پر ہر فرد کی علیحدہ علیحدہ معلومات/تصدیق اس دفتر کو جلد سے جلد فراہم کی جائے تاکہ اس معاملے کو آگے بڑھایا جا سکے۔

عمر شیخ نے کہا کہ اس کارروائی کی تجویز ان شکایات کے بعد کی گئی ہے کہ پولیس عہدیداران/افسران نے لاہور میں اپنی سالوں کی پوسٹنگ کے دوران اپنے ذرائع آمدن سے زیادہ بڑی جائیدادیں جمع کیں، انہوں نے کہا کہ یہ پہلا مرحلہ ہے جس میں محکمے کے پاس موجود ریکارڈ پر شکوک و شبہات کے بعد لاہور پولیس کمانڈ نے 197 اہلکاروں/افسران کو شارٹ لسٹ کیا تھا۔

اطلاع ملنے کے بعد سی سی پی او نے کہا کہ وہ الزامات میں قصوروار پائے جانے والوں کے خلاف وسیع پیمانے پر اور سخت محکمانہ کارروائی کا آغاز کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے قدم کے طور پر مجرم افسران کی پوسٹنگ پر پابندی عائد ہو گی اور دوسرے اقدام کے طور پر انہیں مثالی سزائیں دی جائیں گی۔

ایک سرکاری خط و کتاب کے مطابق، جس کی ایک نقل ڈان کو بھی دستیاب ہے، اس کے تحت 197 پولیس عہدیداروں/افسران میں 38 ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس/ سب ڈویژنل پولیس افسران، 44 انسپکٹرز اور 28 سب انسپکٹرز شامل ہیں۔

38 ڈی ایس پیز میں سے چھ لاہور پولیس کی چھ ڈویژنوں میں اینٹی وہیکل لفٹنگ اسکواڈ کے آرگنائزڈ کرائم ونگ اور دیگر کو ایس ڈی پی او کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے، ایس ڈی پی او کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والوں میں سے 7 کو سٹی ڈویژن سے، سول لائنز، اقبال ٹاؤن اور کینٹ ڈویژن سے ایک ایک، ماڈل ٹاؤن سے پانچ اور صدر ڈویژن سے تین کو شارٹ لسٹ کیا گیا تھا، ان افسران کی اکثریت لاہور میں متعدد تھانوں میں اسٹیشن ہاؤس افسر (ایس ایچ او) کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکی ہے۔

44 انسپکٹرز میں سے 28 ایس ایچ اوز اور 16 تھانوں کے تفتیشی ونگ کے انچارج کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔

سی سی پی او نے بتایا کہ لاہور پولیس نے تحقیقات کے پہلے مرحلے میں شناخت ہونے والے عہدیداروں کے بارے میں وہی معلومات حاصل کرنے کے لیے خصوصی برانچ سمیت دیگر سویلین ایجنسیوں کو بھی خط لکھا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ محکمے نے ایک نئے معیاری ایس او پیز متعارف کرائے ہیں جس کے مطابق کوئی بھی اہلکار/افسر اپنے اثاثوں کے اعلان تک لاہور میں تعینات نہیں ہوگا، تمام اعلیٰ پولیس افسران کو خط پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنے کے لیے ایک سرکلر جاری کیا گیا ہے۔

عمر شیخ نے دعویٰ کیا کہ اس عمل سے لاہور کے تھانوں میں ڈی ایس پیز، ایس ایچ اوز اور انوسٹی گیشن ونگ انچارجز کی پوسٹنگ/تقرری میں شفافیت کو یقینی بنانے کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے جو ماضی میں بدعنوانی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے مرکز رہے ہیں۔