مالی بحران میں ڈوبے محکمہ ریلوے کا حکومت سے مدد طلب کرنے پر غور
لاہور: رواں سال مارچ کے بعد سے ایک شدید مالی بحران کا سامنا کرنے والے پاکستان ریلوے میں اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو امکان ہے کہ آئندہ 2 ماہ میں ادارہ تنخواہوں اور پینشن کی ادائیگی نہیں کرسکے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاک ڈاؤن پابندی ختم ہوچکی ہے تاہم اب بھی چلنے والی مسافر ٹرینوں کی تعداد آدھی رہ گئی ہے اور ٹرینوں کے آپریشن میں کوئی بہتری نظر نہیں آرہی ہے کیونکہ مسافروں کی تعداد میں تیزی سے کمی واقع ہوئی ہے۔
حالیہ دو ہفتوں کے دوران لاہور اور دیگر بڑے ریلوے اسٹیشنز سے مسافروں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے حکام وقتاً فوقتاًٹرینوں کی روانگی منسوخ کرنے پر مجبور ہیں۔
ایک سرکاری ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ 'پاکستان ریلویز نے گزشتہ تین مہینوں کے دوران اپنی آمدنی کا تقریباً 50 فیصد حصہ کھو دیا ہے کیونکہ کورونا وائرس کا خوف، ٹرینوں کی آمد / روانگی کے شیڈول میں رکاوٹیں اور حادثات وغیرہ کی وجہ سے مسافروں کی تعداد مسلسل کم ہورہی ہے'۔
مزید پڑھیں: ریلوے کے خستہ حال ٹریکس کی فوری مرمت کی جائے، ٹرین ڈرائیورز کا مطالبہ
عہدیدار نے بتایا کہ گزشتہ 3 ماہ کے دوران ریلوے نے تقریباً 16 ارب روپے کے ہدف کے مقابلے میں 8 ارب 10 کروڑ روپے کی کمائی کی جس سے واضح طور پر بڑے پیمانے پر ریونیو میں کمی کا رجحان ظاہر ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ '25 مارچ سے 19 مئی تک ملک بھر میں کورونا وائرس لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسافروں اور مال بردار ٹرین کے آپریشنز معطل ہونے کی وجہ سے کوئی ریونیو حاصل نہیں ہوا تھا اور 20 مئی سے ریلوے نے 15 ٹرینوں کے ساتھ ایک محدود آپریشن کا دوبارہ آغاز کیا تھا جسے بعدازاں بڑھا کر 30 ٹرینوں تک کردیا گیا۔
واضح رہے کہ لاک ڈاؤن سے قبل پاکستان ریلوے 70 مسافر ٹرینیں چلارہا تھا۔
اس کے علاوہ اس وقت چلنے والی 30 ٹرینوں میں مسافروں کی تعداد بھی کم ہونے کی وجہ سے حکام اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ آپریشن کو مکمل طور پر بحال کرسکیں۔
ذرائع نے متنبہ کیا کہ 'اگر یہ صورتحال اگلے دو ماہ تک جاری رہی تو پاکستان ریلویز کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ ماہانہ تنخواہ اور پینشن بھی ادا کرے'۔
پاکستان ریلویز کے چیئرمین ڈاکٹر حبیب الرحمٰن گیلانی کے مطابق بحران کی وجوہات میں کورونا لاک ڈاؤن کی وجہ سے مسافر اور مال بردار ٹرینوں کی معطلی، ایک محدود آپریشن کا دوبارہ آغاز اور مسافروں کی تعداد میں کمی شامل ہیں۔
انہوں نے وضاحت دی کہ 'ہمیں رواں مالی سال کے اختتام تک ریونیو اور اخراجات کے درمیان 6 ارب روپے کے خلا کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لیکن اسی کے ساتھ ہم امید کرتے ہیں کہ فریٹ سیکٹر کی شراکت سے ہمیں اس خلا کو آہستہ آہستہ کم کرنے میں مدد ملے گی'۔
ڈاکٹر حبیب الرحمٰن گیلانی نے کہا کہ موجودہ مالی بحران کے پیش نظر پاکستان ریلویز نے ریٹائرڈ ملازمین کی پینشن کی ادائیگی میں وفاقی حکومت سے مدد لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے ایک سمری تیار کی ہے جس پر وزارت غور کر رہی ہے، اس سمری کے ذریعے ریلویز حکومت سے درخواست کرے گی کہ وہ ریٹائرڈ یا ریٹائر ہونے والے ملازمین کی پینشن اور گرانٹز کے لیے فنڈ مہیا کرے، ہم حکومت سے درخواست کر رہے ہیں کہ اس سمری کے ذریعے پینشن فنڈ بھی بنایا جائے'۔
یہ بھی پڑھیں: ریلوے کا ٹریک لوگوں کے لیے موت کا ٹریک بن چکا ہے، چیف جسٹس
خیال رہے کہ پاکستان ریلویز میں پینشنرز کی تعداد 70 ہزار سے زیادہ ہے۔
پاکستان ریلویز کے مسافروں کی تعداد میں کمی کی ایک اور وجہ ہائی ویز کے نیٹ ورک میں توسیع بتائی جاتی ہے جس نے ملک کے بڑے شہروں کے درمیان سفر کے وقت کو کم کردیا ہے۔
بیشتر ٹرینوں کو لاہور سے کراچی جانے میں 20 گھنٹے تک کا وقت لگتا ہے جبکہ ایئر کنڈیشنڈ کوچز اور بسوں کو اسی سفر کے لیے تقریباً 14 گھنٹے لگتے ہیں۔
مزید یہ کہ گزشتہ دو برسوں میں متعدد ٹرین حادثات نے بھی مسافروں کو اس کے سفر سے دور کردیا ہے۔