جامعہ کراچی میں 'موٹروے جیسا واقعہ' کے عنوان سے سوشل میڈیا پوسٹ پر غم و غصہ
فیس بک پر ایک صارف نے جامعہ کراچی کے اندر نوجوانوں کے گروپ کی جانب سے پیچھا اور ہراساں کرنے سے متعلق پوسٹ شیئر کی ہے جس کے بعد سے سوشل میڈیا پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا جارہا ہے۔
سید شہیر علی نامی ایک صارف نے بتایا کہ ان کے ساتھ دو خواتین دوست تھیں جن میں سے ایک کو کراچی یونیورسٹی کیمپس کے اندر واقع انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن (آئی بی اے) کے گرلز ہاسٹل چھوڑا۔
مزید پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ اپنی دوسری دوست کے ہمراہ واپس جارہے تھے کہ موٹر سائیکلوں پر سوار لڑکوں کے ایک گروپ نے گاڑی کو گھیرے میں لیا اور گاڑی سے باہر نکلنے کا کہا۔
شہیر علی نے بتایا کہ وہ گاڑی تیزی سے چلا کر آئی بی اے کے بوائے ہاسٹلز پہنچے لیکن لڑکوں نے ایک مرتبہ پھر ان کی کار کو گھیرے میں لے لیا اور لڑکے گاڑی کے شیشوں پر زور زور سے ہاتھ مار کر کہہ رہے تھے 'لڑکی کو باہر نکال، گاڑی روک'۔
شہیر علی نے بتایا کہ وہ دونوں گروہ سے چھٹکارا حاصل کرنے میں کامیاب رہے جبکہ نوجوانوں کی عمریں 15 سے 25 سال کے درمیان تھیں۔
انہوں نے بتایا کہ اس دوران انہوں نے گارڈز کو اس واقعے سے آگاہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے بعد سے ان کی دوست صدمے کی حالت میں ہیں اور وہ اس واقعے کو 'موٹروے جیسا ایک اور ممکنہ واقعہ' سوچ کر سونے سے قاصر ہیں۔
انہوں نے شیئر کی گئی پوسٹ میں کہا کہ ان باتوں کو شیئر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم معجزانہ طور پر اس خوفناک صورتحال سے بچ گئے اور ہمارا فرض ہے کہ آپ سب کو محتاط کریں تاکہ آپ میں سے کسی کے ساتھ ایسا واقعہ پیش نہ آئے۔
شہیر علی نے مزید بتایا کہ یونیورسٹی انتظامیہ کو بھی واقعے سے آگاہ کردیا گیا جو ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہے۔
مزید پڑھیں: جامعہ کراچی میں طالبہ کو 'ہراساں' کرنے کی نئی انکوائری
خیال رہے کہ شہیر علی نے اپنی پوسٹ میں ایک زیادتی کے واقعے کا ذکر کیا جو گزشتہ ماہ لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر پیش آیا تھا جس میں ایک خاتون کو ان کے بچوں کے سامنے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا تھا، تاہم کیس کا مرکزی ملزم تاحال گرفتار نہیں ہوسکا ہے۔
آئی بی اے کے ہیڈ آف مارکیٹنگ و کمیونیکشن حارث توحید نے واقعے کو انتہائی افسوسناک قرار دیا۔
انہوں نے کہا کہ 'طلبہ، عملے اور فیکلٹی اراکین کی حفاظت آئی بی اے کے لیے اہم ہے اور جیسے ہی اس واقعے کی اطلاع انتظامیہ کو دی گئی انہوں کے فوری طور پر معاملہ یونیورسٹی کی سیکیورٹی انتظامیہ، پولیس اور رینجرز کے پاس اٹھایا گیا'۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی بی اے کے سیکیورٹی اہلکار متاثرہ طلبہ اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یونیورسٹی کے کیمپس، ہاسٹلز اور ملازمین کے رہائشی کمپلیکس کی ساتوں دن 24 گھنٹے سی سی ٹی وی کے ذریعے نگرانی کی جاری ہے۔
خیال رہے کہ پوسٹ کو فیس بک پر 4 ہزار سے زائد مرتبہ شیئر کیا گیا اور وہ ٹوئٹر پر ٹرینڈ بن گیا جہاں لوگوں نے یونیورسٹی کے ایک کیمپس کے اندر واقعے پر غم و غصے اور صدمے کا اظہار کیا۔
مزید پڑھیں: بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کو ہراساں کرنے کے واقعات پر احتجاج
پورے دن ٹوئٹر پر 'کراچی یونیورسٹی محفوظ نہیں ہے' ٹاپ ٹرینڈز میں شامل رہا کیونکہ لوگوں نے واقعے کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے کے لیے ہیش ٹیگ کا استعمال کیا۔
ٹوئٹر صارف محمد وہاب نے فیس بک پوسٹ کے اسکرین شاٹس شیئر کرتے ہوئے کہا کہ 'کے یو کو اس کی تحقیقات کرانے اور اس کی سیکیورٹی بڑھانے کی ضرورت ہے، اب ہمیں ان کے خلاف سخت کارروائی کرنا ہوگی، خدا کا شکر ہے کہ یہ سن کر آپ لوگ بچ گئے'۔
ایک اور صارف ظفر ڈار نے کہا کہ ان کی اہلیہ اور خود انہوں نے دیکھا کہ 'جنگلی گھاس اور درختوں کو فوری طور پر تراشنا ضروری ہے کیونکہ مسکن سے آئی بی اے تک کا راستہ جنگل کی طرح لگتا ہے اور یہ لڑکیوں کے لیے محفوظ نہیں ہے۔
ٹوئٹر صارف عائشہ نے کہا کہ وہ اس واقعے سے 'بہت خوفزدہ ہیں' کیونکہ عام طور پر رات کے وقت میں اسی سڑک سے گزرتی ہوں۔