اسٹل برتھ کی اصطلاح ایسے بچوں کے لیے استعمال ہوتی ہے جن میں حمل کے 28 ہفتوں یا اس کے بعد زندگی کے آثار ختم ہوجائیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اس طرح کے 84 فیصد کیسز ترقی پذیر ممالک میں سامنے آتے ہیں۔
یونیسیف کی ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہنریٹا فورے نے بتایا کہ ہر 16 سیکنڈ میں کسی جگہ ایک ماں کو اس المیے کا سامنا ہوتا ہے، جبکہ خواتین، خاندانوں اور معاشروں کو نفسیاتی اور مالیاتی مسائل کا بھی سامنا ہوتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے زیادہ تر کیسز کی روک تھام بہتر نگرانی، مناسب نگہداشت اور اچھے طبی عملے سے ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پیدائش کے وقت یا حمل کے دوران بچے کو کھو دینا ایک خاندان کے لیے تباہ کن المیہ ہوتا ہے، مگر ایسا دنیا بھر میں بہت عام ہے۔
رپورٹ میں خبردار کای گیا کہ کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں ان اموات کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوسکتا ہے، کیونکہ اس کے باعث طبی سروسز کی شرح میں اوسطاً 50 فیصد کمی آئی ہے، جس سے 117 ترقی پذیر ممالک میں اضافی 2 لاکھ مردہ بچوں کی پیددائش کا امکان ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے بتایا کہ اس طرح کی 40 فیصد سے زیادہ اموات زچگی کے دوران ہوتی ہیں اور ان سے بچنا ممکن ہے، اگر خواتین تربیت یافتہ عملے کی مدد لیں۔
رپورٹ کے مطابق افریقہ اور وسطی ایشیا میں 50 فیصد مردہ بچوں کی پیدائش زچگی کے دوران ہوتی ہے جبکہ یورپ، شمالی امریکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں یہ شرح 6 فیصد ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ترقی یافتہ ممالک میں رنگدار اقلیتی برادریوں میں اس طرح کے کیسز کی شرح زیادہ ہے۔
عالمی بینک کے ہیلتھ، نیوٹریشن اور پاپولیشن ڈویژن کے گلوبل ڈائریکٹر محمد علی پیتے نے کہا 'کووڈ 10 سے خواتین، بچوں اور نوجوانوں کے لیے طبی بحران پیدا ہوا ہے کیونکہ زندگی بچانے والی طبی سروسز متاثر ہوئی ہیں'۔
انہوں نے مزید کہا 'حاملہ خواتین کو مسلسل معیاری نگہداشت تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے، ہم طبی نظام کو مضبوط بنانے کے لیے ممالک کی معاونت جاری رکھیں گے تاکہ مردہ بچوں کی پیدائش کی روک تھام ہوسکے اورر ہر حاملہ خاتون کو معیاری نگہداشت فراہم کی جاسکے'۔