احتساب کی مہم اور جمہوری لیڈروں کی پریشانی، آگے کیا کچھ ہوسکتا ہے؟
ملک میں جاری احتساب کی مہم نے تحقیقات اور قانونی کارروائی سے متعلق ریاست کی ناقص صلاحیت کا پول کھول دیا ہے۔ ملک کے معروف سیاستدانوں کے خلاف خاطر خواہ ثبوت ہونے کے باوجود بھی قانونی کارراوئی کے لیے ’بیرونی اثر و رسوخ‘ کی ضرورت پڑنا اس عمل کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
کسی بھی مؤثر قانونی نظام میں احتساب کا یہ طریقہ بالکل غیر ضروری ہوتا۔ خاص طور پر اگر ہم الزامات کی سادگی کو دیکھیں تو ایک ایسا قانونی عمل جس میں بیرونی عمل دخل کی ضرورت ہو تو یہ ایک مضحکہ خیز بات معلوم ہوتی ہے۔
الزامات یہ ہیں کہ ایک ٹرسٹ کا معاہدہ ایسے فونٹ میں تحریر ہوا جس کا اس دور میں وجود ہی نہیں تھا۔ ایک عرب شخص نے شریف خاندان سے حصص خریدے اور پھر ان ہی کو وہ حصص تحفے کے طور پر دے دیے اور اسی دوران آصف زرداری کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزامات میں وعدہ معاف گواہ بھی بنا۔
اسی طرح آصف زرداری نے اپنے اثاثوں میں جو گاڑی ظاہر کی اس کی کسٹم ڈیوٹی ایک ایسے شخص نے ادا کی جو پہلے ہی فوت ہوچکا تھا۔ ایک ماڈل جو بیرونِ ملک 81واں سفر کر رہی تھی اور جس کے سامان میں 5 لاکھ ڈالر نقد موجود تھے، اس ماڈل کا ہوائی جہاز کا ٹکٹ اومنی گروپ نے کروایا تھا اور اس کے ہمراہ آصف زرداری کے اسٹاف کا سابق رکن موجود تھا۔ بلاول بھٹو کے کھانے پینے کے بل گھوسٹ اکاؤنٹ سے ادا کیے جاتے رہے، اور سندھ کے وزیرِاعلیٰ مراد علی شاہ کی جانب سے اومنی گروپ کو صوبائی سبسڈی دی گئی۔
مزید پڑھیے: میاں صاحب اور ان کی بیٹی پارٹی کو کہاں لے جارہے ہیں؟
بلآخر نواز شریف کے لیے یہ معاملہ اس قابلِ وصول رقم پر آکر رکا جو انہوں نے وصول ہی نہیں کی اور آصف زرداری کے لیے معاملات سزا اور جزا کا نہ ختم ہونے والا کھیل بن گیا ہے۔ بلاول زرداری اور مراد علی شاہ مستثنیٰ نظر آتے ہیں۔
یہ کہا جاتا ہے کہ حزبِ اختلاف کی جانب سے جو سویلین بالادستی پر دیا جانے والا زور ہے، یہ دراصل اپنے ذاتی مفادات کو بچانے کے لیے ہے جسے احتساب کے پردے میں چُھپے انتقام سے خطرہ ہے۔ نواز شریف بھی اپنی بیٹی کے مستقبل کے لیے کوشاں ہیں اور نظر یہ آرہا ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے جمہوری اصولوں پر بھی سمجھوتا کرلیں گے۔ اس بات کا ہم نے اس وقت مشاہدہ کیا جب مسلم لیگ (ن) نے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی منظوری میں حصہ لیا۔
آصف زرداری جب تک عملی سیاست میں واپس نہیں آتے تب تک بلاول زرداری ان کے بہترین متبادل ہوسکتے ہیں۔ ویسے بھی اس وقت اگر پیپلزپارٹی کو کوئی چیز سب سے عزیز ہے جسے وہ بچانا چاہتی ہے تو وہ سندھ حکومت ہے۔ پیپلز پارٹی کی جانب سے وزیرِاعظم کو کٹھ پتلی، موجودہ نظام کو ایک تماشہ اور حکومت کو غیروں کے سہارے پر کھڑی حکومت کہا جارہے۔ پیپلز پارٹی نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ وہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تو استعفوں کا مطالبہ کرے گی لیکن خود استعفے نہیں دے گی، جبکہ یہ بات صاف ہے کہ ایک جماعت کے استعفے دوسری جماعت کو بھی مستعفی ہونے پر مجبور کریں گے۔
مولانا فضل الرحمٰن گزشتہ 2 عشروں میں پہلی بار نہ صرف اقتدار سے باہر ہیں بلکہ ان کے پاس کشمیر کمیٹی کی صدارت بھی نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے وہ سرکاری رہائش گاہ استعمال کرسکیں۔ کہا یہ جارہا ہے کہ جمہوریت اور سول بالادستی کی خواہش صرف دھوکہ ہے۔ اصل میں یہ لوگ اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ چاہتے ہیں۔
لیکن یہ سب واقعی معنیٰ رکھتا ہے؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ ایک ایسے جمہوری نظام میں، جہاں ریاست کے مالی معاملات چند سو سرکاری ملازمین کی ایسی مضبوط گرفت میں ہوتے ہیں کہ ان کے اپنے اثاثوں پر سوال اٹھانا غداری کے زمرے میں آتا ہے، تو وہاں آپ ان جمہوریت پسندوں کو جہاں لے جانا چاہیں لے جاسکتے ہیں۔
مزید پڑھیے: کیا کل جماعتی کانفرنس کا اصل ہدف شہباز شریف تھے؟
دوسری بات یہ کہ ایک ایسے ملک میں جہاں مالی ریکارڈ کو ضبط کرنے کے لیے جعلی اکاؤنٹ کیس میں جب رینجرز نے اومنی گروپ کے دفاتر پر چھاپے مارے تو غلطی سے ایک نجی بینک میں بھی چھاپہ مار دیا کیونکہ وہاں سے اومنی کے نام سے ایک سہولت صارفین کو فراہم کی جاتی تھی۔ ریاستی اداروں کو چاہیے کہ وہ اپنے موجودہ غلبے میں کچھ لچک پیدا کریں، یہی سب کے لیے بہتر ہے۔
اپنے ایک مقبول پوڈ کاسٹ ’ریویژنسٹ ہسٹری‘ (revisionist history) میں مالکلم گلیڈویل نے باسٹن ٹی پارٹی کا تجزیہ کیا۔ دسمبر 1773ء میں تجارتی بحری جہازوں کی تباہی سے امریکی جنگِ آزادی کا آغاز ہوا تھا۔ 1760ء کے عشرے میں برطانیہ نے جنگی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے اپنی نوآبادیات میں نئے ٹیکس نافذ کردیے۔ امریکی عوام نے ان نئے ٹیکسوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے برطانوی اشیا کا بائیکاٹ کردیا۔ باسٹن میں چائے کے بائیکاٹ کی مہم چلی جو اس وقت کی ایک اہم درآمد تھی۔
ایک مؤرخ نے امریکا سامان لے جانے والے جہازوں کے کئی دہائیوں پرانے انشورنس ریکارڈوں کو کھنگالا۔ انہوں نے بتایا کہ بوسٹن بندرگاہ میں آنے والا بہت سا سامان نہ ہی برطانوی بندرگاہوں سے گزر کے آیا تھا اور نہ ہی برطانوی جہازوں پر لد کر آیا تھا جبکہ یہ دونوں ہی اس وقت قانونی تقاضے تھے۔ اس کے بجائے یہ سامان دوسری بندرگاہوں سے ہوتا ہوا آتا تھا۔ ایک بار جب یہ بوسٹن پہنچتا تو کسٹمز کی دستاویزات میں اس سامان کی مالیت نجی انشورنس کمپنی کے ریکارڈ سے مختلف ہوتی اور سامان کے مقابلے میں اس پر ادا کی گئی انشورنس کی رقم بھی بہت زیادہ ہوتی۔
باسٹن کے تاجر ملک میں چائے کی اسمگلنگ کر رہے تھے اور چائے کے بائیکاٹ سے انہوں نے بے پناہ منافع کمایا۔ انگریزوں نے اس بائیکاٹ کی وجہ سے 1773ء میں قانون سازی کی جس سے برآمد شدہ چائے کی قیمت اسمگل شدہ چائے کی قیمت کے برابر آگئی۔ باسٹن کے تاجروں نے اس کا حل یہ نکالا کہ مقامی افراد کے بھیس میں بندرگاہ میں داخل ہوکر چائے سے لدے ہوئے برطانوی جہازوں کو تباہ کردیا اور چائے کو سمندر میں پھینک دیا۔
امریکا میں ان بیوپاریوں کو فاؤنڈنگ فادرز یعنی ملک کے بانیان میں شمار کیا جاتا ہے۔ جان ہینکوک اور ان کے دیگر ساتھی دراصل چائے کے اسمگلر تھے جنہوں نے برطانوی مصنوعات کے بائیکاٹ میں منافع کا زبردست موقع دیکھا۔ بوسٹن ٹی پارٹی، بغاوت کے ساتھ ساتھ جرائم کو چھپانے کی بھی کوشش تھی۔
سچی بات یہ ہے کہ یہ کوشش کارگر بھی ثابت ہوئی۔
جہاں تک بیمار نواز شریف کا تعلق ہے، تو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نواز شریف چاہے جتنے بھی ذاتی مفادات رکھتے ہوں یا ان کے 2 دوست مفاہمت کی کوشش میں مصروف ہوں، یا وہ جو باتیں کررہے ہیں وہ بغیر سوچے سمجھے ہی کہہ رہے ہیں، لیکن ان سب کے باوجود ان میں ابھی بھی چنگاری جلانے کی پوری صلاحیت ہے۔
سینیٹ انتخابات پھر آرہے ہیں۔ ہم سب جانتے ہیں کہ گزشتہ انتخابات میں کیا کچھ ہوا تھا، کس طرح پیپلزپارٹی نے اچانک فیصلہ کرلیا تھا کہ نواز شریف ہی درحقیقت سب سے بڑے دشمن ہیں۔ تاہم اس بار اس بات کو یقینی بنانا مقصود ہے کہ جب سب بھیس بدل کر بندرگاہ کی طرف روانہ ہوں تو کوئی آبادکاروں سے معاہدہ نہ کرلے۔ ممکن ہے کہ اس مرتبہ بھی معاملہ جہاز تباہ ہوئے بغیر ختم ہوجائے۔ جہاں تک ہاربر ماسٹر کا تعلق ہے تو وہ بھیس بدلے یا نہ بدلے، مگر وہ نواز شریف اور ان کی کہانیوں سے پریشان ضرور ہوگا۔
یہ مضمون 6 اکتوبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔