اس تحقیق کے دوران کورونا وائرس سے تحفظ کے لیے فیس ماسک پہننے والے افراد کے خون میں آکسیجن یا کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں تبدیلیوں کا تجزیہ کیا گیا جبکہ ایسے افراد کو بھی شامل کیا گیا جو پھیپھڑوں کی بیماری سی او پی ڈی کے شکار تھے۔
سی او پی ڈی کے شکار افراد کے لیے سانس لینا مشکل ہوتا ہے جس کے نتیجے میں دم گھٹتا ہے اور وہ ہر وقت تھکاوٹ محسوس کرتے ہیں۔
طبی جریدے اینالز آف دی امریکن تھوراسسز سوسائٹی میں شائع اس تحقیق میں فیس ماسک کے استعمال کے اثرات کا جائزہ لیا گیا اور دیکھا گیا کہ ایسے افراد جن کے پھیپھڑے بیماری سے بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں، ان پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
میامی یونیورسٹی کی اس تحقیق میں یہ بھی دیکھا گیا کہ کچھ صحت مند افراد فیس ماسک پہننے پر سانس نہ لے پانے کی شکایت کیوں کرتے ہیں۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ماسک پہننے کے بعد کچھ افراد کو سانس لینے میں مشکل کا تعلق جسم میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح میں تبدیلی کا اثر نہیں بلکہ یہ ممکنہ طور پر ماسک سے ہوا کے گزرنے میں رکاوٹ ہوسکتی ہے خاص طور پر ایسے مقامات پر جہاں وینٹی لیشن کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔
مثال کے طور پر اگر آپ کسی پہاڑی پر تیزی سے چل رہے ہیں تو سانس لینے میں مشکل کا سامنا ہوسکتا ہے، اور اس موقع پر فیس ماسک کو سختی سے منہ پر چڑھانے سے یہ احساس بڑھ سکتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس کا حل بھی آسان ہے بس اپنی رفتار کم کردیں یا اگر لوگوں سے محفوظ فاصلے پر ہیں تو ماسک کو اتار دیں۔
انہوں نے کہا کہ لوگوں کو اس سے آگاہ کرنا ضروری ہے کہ فیس ماسک سے ان کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہیں ہوتا بلکہ اس سے کورونا جیسی بیماری سے تحفظ ملتا ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ لوگوں کو اس خیال پر یقین نہیں کرنا چاہیے کہ فیس ماسک کا استعمال انہیں ہلاک کرسکتا ہے۔
خیال رہے کہ منہ اور ناک کو ڈھانپنے کے حوالے سے اکثر افراد کو لگتا ہے کہ فیس ماسک سے جسم کو آکسیجن کی کمی یا منہ سے خارج سانس کو ہی دوبارہ اندر کھینچنے کا امکان ہوتا ہے۔
مگر ایسا کچھ بی نہیں ہوتا اور اس کے پیچھے سائنسی وجوہات ہیں۔
لوز فٹنگ سرجیکل ماسک اور کپڑے کے ماسکس مسام دار ہوتے ہیں، ہوا ان میں آسانی سے آرپار ہوجاتی ہے مگر نظام تنفس سے خارج ہونے والے ننھے ذرات کے لیے آرپار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فیس ماسک بیماری پھیلانے والے جراثیم کی روک تھام کے لیے مؤثر سمجھے جاتے ہیں جو دوسری صورت میں ہوا میں موجود ہوسکتے ہیں۔
ماسک پہننے سے ہوسکتا ہے کہ ایسا محسوس ہو کہ ہوا کا بہاؤ کم ہوگیا ہے، جس سے شریانوں میں آکسیجن یا جسمانی ٹشوز میں آکسیجن کی کمی ہورہی ہے۔
مگر فیس ماسکس سے ہوا کی آمدورفت پر کسی قسم کے اثرات مرتب نہیں ہوتے بلکہ یہ پہننے والے کو نفسیاتی احساس ہوتا ہے کہ سانس لینے میں مشکل ہورہی ہے یا کم ہوا جسم کے اندر جارہی ہے۔
ایک اور خدشہ دوران خون میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح بہت زیادہ بڑھنے کا ہوتا ہے جس سے غنودگی، سردرد اور سنگین کیسز میں بے ہوش ہونے کا امکان ہوتا ہے۔
ایسا سوچا جاتا ہے کہ فیس ماسک پہننے والے خارج کی جانے والی سانس کو ہی دوبارہ کھینچتے ہیں مگر اب تک ایسے شواہد سامنے نہیں آئے جو اس خیال کو درست ثابت کرتے ہوں۔