پاکستان

بھارت، کلبھوشن یادیو کیس میں سہولت حاصل کرنے سے گریزاں ہے، اٹارنی جنرل

بظاہر بھارتی حکام اور جاسوس ریلیف حاصل کرنے یا کیس لڑنے کے لیے وکیل مقرر کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہے، خالد جاوید خان
|

اسلام آباد ہائی کورٹ کے بینچ کو بتایا گیا کہ بظاہر بھارتی حکام اور بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو عالمی عدالت انصاف کی ہدایات کی پیروی میں نافذ کردہ انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ریویو اینڈ ری کنسڈریشن) آرڈیننس 2020 کے تحت دیے گئے قونصلر رسائی اور سہولت کے مواقع کو حاصل کرنے سے گریزاں نظر آرہے ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اٹارنی جنرل برائے پاکستان خالد جاوید خان نے بینچ کو آگاہ کیا کہ وزارت خارجہ نے 4 ستمبر کو بھارتی وزارت خارجہ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم بھجوایا تھا تا کہ انہیں عدالت میں قانونی کارروائی میں شمولیت کے موقع کے بارے میں بتایا جائے۔

تاہم نہ تو بھارتی حکومت اور نہ ہی بھارتی خفیہ ادارے ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ (را) کا کمانڈر کلبھوشن یادیو لیگل پریکٹیشنر اور بار کونسل ایکٹ کے مطابق عالمی عدالت انصاف کی ہدایات کے باوجود ریلیف حاصل کرنے یا کیس لڑنے کے لیے وکیل مقرر کرنے میں دلچسپی لیتے نظر آئے۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کیس: 2 وکلا نے عدالت عالیہ کی معاونت سے معذرت کرلی

انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت نے 7 ستمبر کو پاکستان کے خط کا جواب دیا اور پاکستان کی جانب سے کلبھوشن یادیو کو قونصلر رسائی اور نظرِ ثانی کا موقع فراہم کرنے کی مسلسل کوششوں پر 3 بڑے اعتراضات اٹھا کر کارروائی میں شامل نہ ہونے کا پرانا مؤقف دہرایا۔

اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بھارتی حکومت نے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ریویو اینڈ ری کنسڈریشن) آرڈیننس 2020 کو حقیقی سہولت نہیں بلکہ ’سہولت کا فریب‘ قرار دیا ہے۔

خالد جاوید خان نے آرڈیننس کی وضاحت کی جسے عالمی عدالت انصاف کی ہدایات پر مکمل پیروی کے لیے مزید 120 روز کی توسیع دی جاچکی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بھارتی حکام اس بات پر مصر ہیں کہ انہیں گرفتار جاسوس تک ’بامعنی‘ قونصلر رسائی نہیں دی گئی اور کیس لڑنے کے لیے پاکستانی وکیل کی خدمات لینے سے بھی انکار کردیا ہے اور مطالبہ کیا کہ صرف ملکہ کا وکیل (دولت مشترکہ کے مختلف ممالک میں ملکہ برطانیہ کی جانب سے تعینات کردہ سینئر وکیل) بھارتی جاسوس کا کیس لڑے۔

مزید پڑھیں: بھارتی حکومت کو کلبھوشن یادیو کا وکیل مقرر کرنے کا حکم

اٹارنی جنرل نے کہا کہ لیگل پریکٹیشنر اور بار کونسل ایکٹ کے مطابق کوئی بھی وکیل جس کا پاکستان کی کسی بار میں اندراج نہ ہو پاکستان میں موجود عدالتوں میں دلائل نہیں دے سکتا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت کا مطالبہ نہ صرف پاکستان کے قانونی نظام بلکہ بھارت کے قانونی طریقہ کار کے بھی خلاف ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس عامر فاروق اور جسٹس مینا گل حسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے دلائل سنے لیکن ’مکمل احتیاط‘ سے آگے بڑھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بھارتی حکومت کی جانب سے کلبھوشن کو سپورٹ فراہم کرنے کے لیے بھارتی حکومت کے مسلسل انکار کی وجہ سے پاکستان پر عائد پابندیوں کا جائزہ لینے کے لیے عدالتی معاون اور اٹارنی جنرل کی معاونت طلب کرلی۔

عدالت نے کہا کہ ’ہم اس بات سے آگاہ ہیں کہ اس معاملے میں کلبھوشن یادیو کے حقوق منسلک ہیں، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حکومت پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو مؤثر بنانے کی پابند ہے، مذکورہ معاملے کی اہمیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بالخصوص جب کہ کلبھوشن یادیو کی زندگی اور فیئر ٹرائل کا حق اس میں شامل ہے اس لیے ضروری ہے کہ مکمل احتیاط سے آگے بڑھا جائے‘۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی بھارت کو ایک بار پھر کلبھوشن تک قونصلر رسائی کی پیشکش

یاد رہے کہ اگست کے اواخر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے تین سینئر وکلا کو کلبھوشن یادیو کیس میں عدالتی معاون مقرر کردیا تھا اور اٹارنی جنرل خالد جاوید خان سے کہا تھا کہ بھارتی جاسوس کے دفاع کے لیے وکیل مقرر کرنے کے لیے ایک مرتبہ پھر بھارتی حکومت کو پیشکش کی جائے۔

عدالت نے اپنے حکم میں کہا تھا کہ ’ہم سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹس اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدور عابد حسن منٹو، میر حامد خان اور سابق اٹارنی جنرل آف پاکستان اور سپریم کورٹ کے سینئر وکیل مخدوم علی خان کو بالعموم قانونی معاونت کے لیے اور بالخصوص عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے مؤثر نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے عدالتی معاونین مقرر کرتے ہیں‘۔

بعد ازاں 3 ستمبر کو پاکستان نے بھارت کو ایک بار پھر جاسوس کلبھوشن یادیو تک قونصلر رسائی کی پیشکش کی تھی۔

دفتر خارجہ میں ہفتہ وار میڈیا بریفنگ کے دوران ترجمان زاہد حفیظ چوہدری نے کلبھوشن یادیو کیس کے حوالے سے کہا تھا کہ پاکستان کیس میں عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر مکمل عملدرآمد کے لیے پرعزم ہے، ہم بارہا بھارتی حکومت کو کہہ رہے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور پاکستانی عدالتوں سے تعاون کریں جبکہ بھارت کو ایک اور قونصلر رسائی کی پیشکش کرتے ہیں اگر وہ حاصل کرنا چاہے۔

کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور عالمی عدالت میں مقدمہ

یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔

بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی سفارت کار کلبھوشن کی کوئی بات سنے بغیر چلے گئے، شاہ محمود

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی تھی جس میں اس نے اعتراف کیا تھا کہ اس کا پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔

بعدازاں اپریل 2017 کو آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو فوجی عدالت نے پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت دینے کا فیصلہ سنایا تھا، جس کی توثیق بعد میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔

بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی سزائے موت کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے جسے سماعت کیلئے مقرر کرلیا گیا۔

عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیا تھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔

بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔

جس کے بعد 18 مئی 2018 کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی۔

بعد ازاں 17 جولائی 2019 کو عالمی عدالت نے کیس کا حتمی فیصلہ سنادیا تھا جس کے مطابق کلبھوشن یادیو کو پاکستانی فوجی عدالت کی جانب سے دیا جانے والا سزائے موت کا فیصلہ منسوخ اور کلبھوشن کی حوالگی کی بھارتی استدعا مسترد کردی گئی تھی۔عدالت نے اپنے فیصلے میں پاکستان کو ہدایت کی تھی کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے، جس پر پاکستان نے بھارتی جاسوس کو قونصلر رسائی فراہم کردی تھی

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن کیس: بھارت کو وکیل مقرر کرنے کی ایک اور پیشکش کی جائے، عدالت

قبل ازیں دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن یادیو سے ان کی اہلیہ اور والدہ کی ملاقات بھی کروائی تھی۔

علاوہ ازیں عالمی عدالت کے فیصلے کے بعد ستمبر 2019 میں کلبھوشن یادیو کو دی گئی پہلی قونصلر رسائی ویانا کنونشن اور عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت دی گئی تھی جو 2 گھنٹوں تک جاری رہی تھی۔

جس کے بعد جولائی 2020 میں پاکستان نے زیر حراست اور سزا یافتہ بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را' کے جاسوس کمانڈر کلبھوشن یادیو کو دوسری مرتبہ قونصلر رسائی دی تھی۔

مسلم لیگ (ن) کی قیادت کے خلاف بغاوت کے مقدمے پر نئی بحث چھڑ گئی

دوران حمل بہت زیادہ فولک ایسڈ کا استعمال بچوں کی نشوونما کیلئے نقصان دہ

اسرائیل اور یو اے ای کے وزرائے خارجہ کی مذاکرات کیلئے جرمنی میں ملاقات