ویب سائٹ کے مطابق 'کچھ افراد میں یہ بیماری وائرس کے ان ننھے ذرات اور اجزا سے پھیل سکتی ہے جو ہوا میں کئی منٹ سے لے کر گھنٹوں تک موجود ہوتے ہیں، یہ وائرسز لوگوں کو کسی بیمار فرد سے 6 فٹ سے زیادہ دوری پر بھی متاثر کرسکتے ہیں یا جب متاثرہ فرد اس جگہ سے چلا جاتا ہے'۔
ویب سائٹ میں مزید بتایا گیا 'اس طرح کے پھیلاؤ کو ایئر بورن ٹرانسمیشن کہا جاتا ہے اور یہ ٹی بی، خسرے اور چکن پاکس جیسی بیماریوں کے پھیلاؤ کا اہم ذریعہ ہے'۔
اگرچہ سی ڈی سی نے اس موقف کو برقرار رکھا ہے کہ کووڈ 19 کے پھیلاؤ کا بنیادی ذریعہ کسی متاثرہ فرد کے بہت زیادہ قریب رہنا ہے، مگر یہ بتایا کہ ہوا کے ذریعے اس وائرس کے ذرات متاثرہ فرد سے 6 فٹ سے زیادہ دور موجود افراد کو بھی شکار کرسکتے ہیں، خاص طور پر ایسی جگہوں پر جو بند ہو اور وہاں ہوا کی نکاسی کا نظام اچھا نہ ہو۔
اکثر اوقات ایسے کیسز اس وقت پھیلتے ہیں جب متاثرہ فرد گہری سانسیں لے رہا ہو یعنی ورزش کرتے ہوئے یا گانا گاتے ہوئے۔
دنیا بھر میں سائنسدانوں میں کئی ماہ سے یہ بحث ہورہی ہے کہ منہ یا ناک سے خارج ہونے والے ذرات ہوا میں رہ کر کس حد تک کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں کردار ادا کررہے ہیں۔
اس سے پہلے ماہرین اور کچھ تحقیقی رپورٹس میں تو کورونا وائرس کے ہوا کے ذریعے پھیلنے کے امکان کی نشاندہی کی گئی مگر اہم طبی ادارے تاحال اس کی تردید کرتے رہے ہیں۔
اگست میں امریکا کی کیلیفورنیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19 کا باعث بننے والا کورونا وائرس ہوا میں 5 میٹر تک سفر کرسکتا ہے۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ منہ یا ناک سے خارج ہونے والے کووڈ 19 کے ننھے ذرات ہوا میں طویل وقت تک موجود رہ سکتے ہیں اور اس عرصے میں زیادہ افراد کو بیماری کا شکار کرسکتے ہیں۔
سائنسدان فلوریڈا یونیورسٹی ہیلتھ شانڈز ہاسپٹل میں زیرعلاج مریضوں سے 4.8 میٹر کی دوری پر وائرس والے وبائی ذرات کو الگ کرنے میں کامیاب ہوئے۔
تحقیق کے دوران سائنسدانوں نے ہسپتال میں مریضوں کے کمرے میں 2 میٹر اور 4.8 میٹر سے نمونے اکٹھے کیے۔
وہ دونوں فاصلوں سے وائرس کو اکٹھا کرنے میں کامیاب رہے اور لیبارٹری ٹیسٹوں سے انکشاف ہوا کہ نمونے خلیات کو متاثر کرنے کے لیے کافی تھے۔
محققین نے تحقیق کے دوران وہ طبی طریقہ کار استعمال نہیں کیا جس کو ماضی میں عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ہوا سے بیماری کے پھیلاؤ کی شناخت کے لیے استعمال کیا جاچکا ہے۔
اس کے باوجود ہوا کے نمونوں میں وائرس کو الگ کرنے کے باعث سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ چاردیواری کے اندر وائرس کے پھیلنے کا خطرہ سابقہ اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔
تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں کیسز کی تعداد میں اضافے کو دیکھتے ہوئے ہوا میں موجود ذرات کے حوالے اقدامات کے لیے واضح رہنمائی کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے آغاز سے ڈبلیو ایچ او نے یہ موقف اختیار کیا ہوا تھا کہ یہ وائرس منہ یا ناک سے خارج ہونے والے ذرات کے ذریعے ہی پھیل سکتا ہے جن کا حجم انسانی بال کی چوڑائی جتنا ہوسکتا ہے مگر یہ ایروسول یا ہوا میں تیرنے والے انتہائی ننھے ذرات کے مقابلے میں بڑے اور بھاری ہوتے ہیں۔
تاہم جولائی میں پہلی بار عالمی ادارہ صحت نے تسلیم کیا کہ نیا کورونا وائرس ناقص ہوا والے کسی کمرے میں ہوا کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے اور 6 فٹ سے بھی زیادہ فاصلے پر موجود لوگوں تک جاسکتا ہے۔
عالمی ادارے کی جانب سے کہا جاتا رہا ہے کہ ہسپتالوں سے باہر ایسے شواہد نہیں ملے کہ نوول کورونا وائرس ہوا میں بہت دیر تک تیر سکتا ہے یا بہت دور تک سفر کرسکتا ہے، یعنی دیگر افراد سے چند فٹ کی دوری اختیار کرنے خود کو محفوظ کرنے کے لیے اہم احتیاط سمجھی جاتی ہے۔
مگر جولائی کے آغاز میں سیکڑوں طبی ماہرین نے ایک کھلے خط میں عالمی ادارہ صحت سے درخواست کی تھی کہ وہ اپنے موقف پر نظرثانی کرے، جس کے بعد ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ پر نئی سائنسی سفارشات جاری کی ہیں۔