نقطہ نظر

میاں صاحب اور ان کی بیٹی پارٹی کو کہاں لے جارہے ہیں؟

اس وقت ریاست کی طاقت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ امید رکھنا کہ عوام سڑکوں پر نکلیں گے سیاست کے اجنبی راستے پر قدم رکھنے کے مترادف ہوگا۔

ملک میں بڑھتے ہوئے سیاسی درجہ حرارت کے تناظر میں دیکھا جائے تو جو کچھ مولانا فضل الرحمٰن نے کیا ہے وہ محض اتفاق نہیں ہوسکتا۔ یہ اس ظرافت کا عکاس ہے جس کے بارے میں وہ مشہور ہیں۔

سوشل میڈیا پر جاری ہونے والی ایک تصویر میں مولانا فضل الرحمٰن کو آنکھوں پر دھوپ سے بچنے کی عینک اور چہرے پر مسکراہٹ سجائے شمالی علاقہ جات میں وقت گزارتے دیکھا گیا۔ ان کے پس منظر میں سرسبز پہاڑ اور بہتا دریا بھی دکھائی دے رہا ہے۔

کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ تصویر اصل نہیں بلکہ فوٹو شاپ کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔ کچھ کا کہنا ہے کہ تصویر میں نظر آنے والی جگہ کشمیر کی وادی نیلم ہے۔ حقیقت کچھ بھی ہو اگر اس تصویر میں کوئی سیاسی پیغام تھا تو وہ دلچسپ اور پُرلطف تھا۔

جن مخالفین پر مولانا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی تشکیل کے بعد سے تابڑ توڑ حملے کر رہے ہیں کیا اپنے اس عمل سے انہیں پیغام دیا گیا ہے کہ وہ ایسے کسی حربے سے خوفزدہ نہیں ہیں جو ریاست انہیں یا ان کے ساتھیوں کو دبا نے کے لیے استعمال کرنے جارہی ہے۔

میں یہ اس وجہ سے کہہ رہا ہوں کیونکہ گزشتہ دنوں سابق صحافی اور ایس ای سی پی کے موجودہ افسر ساجد گوندل نے اپنی جبری گمشدگی سے واپسی پر یہ بیان دیا تھا کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ شمالی علاقہ جات کی سیر کرنے گئے تھے اور اپنے گھر والوں کو اطلاع دینا بھول گئے تھے۔

یوں ساجد گوندل نے لفظ ’شمالی علاقہ جات‘ کو پاکستان کی اس سیاسی لغت میں شامل کردیا جس میں پہلے ہی محکمہ زراعت، نامعلوم افراد اور فرشتے جیسے الفاظ شامل ہیں جنہیں ان لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جن کا نام نہیں لیا جا سکتا۔

اگر معاملے کے سنجیدہ پہلو پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات اب صاف نظر آرہی ہے کہ نواز شریف نے ان لوگوں کے خلاف سخت مؤقف اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے جن کا پاکستان میں بہت کم نام لیا جاتا ہے اور جنہیں وہ ایک جمہوری طور پر منتخب حکومت گرانے اور انہیں وزیرِاعظم کی کرسی سے اتارنے کا ذمے دار سمجھتے ہیں۔

وہ طویل عرصے تک خاموش رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ وہ کسی کو بھی اس بات کی اجازت دینے کے لیے راضی نہیں ہیں کہ وہ انہیں خاموش کرانے کے لیے مریم نواز کی پاکستان میں موجودگی اور ان کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو استعمال کرسکے۔

ظاہری طور پر یہ فیصلہ مریم نواز کو اعتماد میں لے کر کیا گیا ہے۔ خود مریم نواز بھی خاموش رہ کر پارٹی قیادت کی جانب سے کسی موقع کا انتظار کر نے کے بجائے ایک ایسے راستے کا انتخاب کر رہی ہیں جس کی جانب وہ فطری طور پر مائل نظر آتی ہیں۔

اگر پی ڈی ایم کے اجلاس میں کی گئی نواز شریف کی تقریر ان کی تبدیل شدہ حکمتِ عملی کا پہلا اشارہ تھی تو پارٹی کی سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب اس بات کی تصدیق تھی کہ اب ایک جارحانہ پالیسی اپنا لی گئی ہے۔

سینٹرل ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں موجود کچھ رہنماؤں کے مطابق نواز شریف نے اپنی تقریر سے ماحول گرما دیا تھا۔ نواز شریف نے ان لوگوں پر کڑی تنقید کی جو ان کی جماعت کو اقتدار سے ہٹانے کے ذمہ دار ہیں۔

کمیٹی کے ایک رکن، جن کا بلاشبہ تعلق مریم نواز کے کیمپ سے تھا، انہوں نے مجھے بتایا کہ ’میاں صاحب کے خطاب کے بعد دیگر پارٹی قائدین نے بھی خطاب کیا اور پارٹی پالیسی اور اپنے قائد کی حمایت کا یقین دلایا۔ آخر میں سینیٹر پرویز رشید نے احسن اقبال سے درخواست کی کہ وہ مریم نواز کو خطاب کا موقع دیں‘۔

’اگرچہ مریم نواز نے بمشکل 15 منٹ بات کی، مگر خود کو ایک حقیقی لیڈر ثابت کیا۔ حاضرین کو اب کوئی شبہ نہیں رہا تھا کہ پارٹی کا مستقبل کون ہے۔ ان کی تقریر بہت واضح تھی اور مستقبل کے لائحہ عمل کے بارے میں ان کے ذہن میں کوئی الجھن نہیں تھی‘۔

گزشتہ کچھ دنوں میں مسلم لیگ (ن) کے قائدین سے جب پارٹی کے مقاصد اور مستقبل کی حکمتِ عملی کے بارے میں سوال کیا گیا تو زیادہ تر قائدین نے یا تو اپنے پتے ظاہر نہیں کیے یا پھر خاطر خواہ معلومات نہ ہونے کے سبب عمومی جوابات ہی دیے۔

بہرحال اس صورتحال میں ایک بات تو واضح ہے کہ متعدد طے شدہ ریلیوں اور دیگر عوامی سرگرمیوں کی وجہ سے رواں ماہ مسلم لیگ (ن) کے لیے بہت اہم ہے۔ میرے خیال میں ان سرگرمیوں کا مقصد عوامی حمایت کو جانچنا ہے۔

اس بارے میں کسی کو کوئی شک نہیں ہونا چاہیے کہ منصوبہ بندی کے مطابق پنجاب حزبِ اختلاف کی تحریک میں ہر اوّل دستے کا کام کرے گا۔ اور جیسا کہ مسلم لیگ (ن) کا خیال ہے اگر پنجاب کا بڑا حصہ واقعی اہل اقتدار کے رویے سے نا خوش ہے تو لوگ ضرور پی ڈی ایم کی کال کا جواب دیں گے۔

پھر پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی انتخابی قوت پر تو کسی نے کبھی بھی کوئی شک نہیں کیا۔ 2018ء کے انتخابات میں بھی پنجاب کو مسلم لیگ (ن) سے چھیننے کے لیے طویل منصوبہ بندی اور گھناؤنی چالوں کا سہارا لینا پڑا۔ لیکن اس دلیل کو آگے بڑھاتے ہوئے یہ سمجھنا کہ عوام ریاست کے ردِعمل کی پرواہ کیے بغیر سڑکوں پر نکل آئیں گے ایسا ہی ہے جیسے کسی کھیل میں بڑا داؤ لگانے کے بعد بھی شکست نظر آرہی ہو۔

حتیٰ کے مثبت ترین سوچ کے حامل سیاسی ماہرین کا بھی خیال ہے کہ اس وقت ریاست کی طاقت کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس بات کی امید رکھنا کہ عوام سڑکوں پر نکلیں گے سیاست کے اجنبی راستے پر قدم رکھنے کے مترادف ہوگا۔

مسلم لیگ (ن) کے ایک سینئر رہنما کا خیال ہے کہ اس وقت پارٹی کے قائدین اور خاص طور پر مریم نواز کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ گرفتاریوں سے بچے رہیں۔ ان کی گرفتاری پارٹی کے لیے ایک دھچکا ہوگی کیونکہ دیگر قائدین کی نسبت وہ پارٹی کے حمایتیوں کی حوصلہ افزائی بہت بہتر انداز میں کرسکتی ہیں۔

مزید پڑھیے: کیا نواز شریف پنجاب کے بھٹو ثابت ہوں گے؟

گوکہ مسلم لیگ (ن) عوامی سیاست کا ایک ایسا کھیل کھیلنے جارہی ہے جس کے انجام سے کوئی واقف نہیں اور اس کی حکمتِ عملی کے بارے میں بھی کئی سوالات سر اٹھائے ہوئے ہیں۔ لیکن ان تمام چیزوں کے بعد بھی اس کی سرگرمیوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرے پر سنجیدگی سے نظر رکھی جارہی ہے اور اس کے اشارے بھی نظر آرہے ہیں جن کو دیکھنے کے لیے بہت زیادہ کوشش کی ضرورت نہیں ہے۔

محمد زبیر اور آرمی چیف کی ملاقات کی خبر لیک ہونا، جس پر بات کرنے سے میڈیا کو روک دیا گیا تھا اور پھر وزیرِاعظم کا بیان جس میں انہوں نے نواز شریف پر بھارتی ایجنڈے پر کام کرنے کا الزام لگایا ہے، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی سرگرمیوں کو ایک خطرہ ضرور سمجھا جارہا ہے۔

غالباً اہلِ اقتدار مستقبل کے حالات کے بارے میں ہم سے بہتر جانتے ہیں۔


یہ مضمون 04 ستمبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

عباس ناصر

عباس ناصر ڈان اخبار کے سابق ایڈیٹر ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس abbas.nasir@hotmail.com ہے۔

انہیں ٹوئٹر پر فالو کریں: abbasnasir59@

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔