پاکستان

ملزم لندن میں بیٹھ کر حکومت اور عوام پر ہنستا ہوگا، اسلام آباد ہائیکورٹ

ہزاروں کیسز ہیں اور ہم اس پر اپنا وقت ضائع کررہے ہیں، نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کے موقع پرجسٹس محسن اختر کے ریمارکس
|

اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنس میں سزا کے خلاف نواز شریف کی اپیلوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ملزم (نواز شریف) حکومت اور عوام کو دھوکا دے کر گیا ہے، ملزم لندن میں بیٹھ کر حکومت اور عوام پر ہنستا ہوگا، نہایت شرمندگی کا مقام ہے۔

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے العزیزیہ اور ایون فیلڈ ریفرنسز میں نواز شریف کی سزا کے خلاف اپیلوں پر سماعت کی۔

خیال رہے کہ 15 ستمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت سےقبل سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

دوران سماعت وفاق کی نمائندگی ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے کی جبکہ نیب کی جانب سے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ پیش ہوئے جبکہ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے کوئی پیش نہیں ہوا کیونکہ گزشتہ سماعت میں ان کے وکیل خواجہ حارث اپنے مؤکل کی درخواست مسترد ہونے پر کیس کی پیروی سے پیچھے ہٹ گئے تھے۔

مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری

اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر عدالت میں پیش ہوئے اور نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری سے متعلق تعمیل کے حوالے سے رپورٹ پیش کی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ایون فیلڈ اپارٹمنٹ پر دوبارہ پاکستانی ہائی کمیشن کے نمائندے وارنٹس کی تعمیل کے لیے گئے، وہاں موجود شخص نے وارنٹ گرفتاری وصول کرنے سے انکار کردیا۔

دوران سماعت عدالت نے پوچھا کہ نواز شریف کے وارنٹ گرفتاری کی تعمیل پر کیا پیش رفت ہوئی؟ جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کی رہائش گاہ پر وارنٹ بھیجے گئے تاہم ان کی رہائش گاہ پر وقار احمد نامی شخص نے عدالت کے وارنٹ موصول کرنے سے انکار کر دیا گیا، وقار احمد نامی شخص نے وارنٹ گرفتاری وصول کرنے سے انکار کیا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ نواز شریف کے وارنٹ کی تعمیل کرانے کی ہرممکن کشش کی، جس پر عدالت نے کہا کہ ہم نے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے، نواز شریف کے وکیل بیان دے چکے ہیں کہ انہیں وارنٹ گرفتاری کا علم ہے۔

ساتھ ہی جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ دیکھنا ہے کہ کیا جان بوجھ کر عدالتی کارروائی سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہے؟

انہوں نے کہا کہ حکومت جو کچھ کر سکتی ہے کرے، ہم طریقہ کار کے تحت چل رہے ہیں اور اسی کے تحت کارروائی آگے بڑھائیں گے۔

اس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کے سامنے بتایا کہ ہائی کمیشن نے کامن ویلتھ آفس سے ٹیلیفونک رابطہ کیا، آفس نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم پر عملدرآمد ہمارا اختیار نہیں، جس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس کا مطلب ہے کامن ویلتھ آفس ہمیں سہولت دینے کو تیار نہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہمیں شواہد کے ساتھ خود کو مطمئن کرنا ہے کہ عدالت نے وارنٹس کی تعمیل کیلئے اپنی پوری کوشش کی۔

اس موقع پر نیب کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل جہانزیب بھروانہ نے مؤقف پیش کیا کہ نواز شریف وارنٹ گرفتاری جاری ہونے سے آگاہ ہیں، یہ تو نواز شریف کے وکیل نے بھی بتایا تھا کہ انہیں عدالتی حکم سے آگاہ کیا گیا ہے۔

جس پر اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے متعلق سخت ریمارکس دیے کہ ابھی جو آفیشل دستاویزات آرہی ہیں اسے ریکارڈ کا حصہ بنائیں گے، پھر مفرور قرار دیں گے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اس کو قدم بہ قدم (اسٹیپ بائی اسٹیپ) لے کر چلنا ہے، طریقہ کار پر عمل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ کل کو ملزم کوئی سہارا نہ لے سکے، ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ملزم (نواز شریف) حکومت اور عوام کو دھوکا دے کر گیا ہے۔

ساتھ ہی جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ ملزم لندن میں بیٹھ کر حکومت اور عوام پر ہنستا ہوگا، نہایت شرمندگی کا مقام ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس تمام طریقہ کار کو مکمل کرنے کی وجہ ہے، کل ملزم واپس وطن آکر یہ نہ کہے کہ طریقہ کار مکمل نہیں کیا گیا، ہم نے نواز شریف کو مکمل موقع دیا اور اس کے بعد اپیلوں کو سن کر فیصلہ کریں گے۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ہزاروں کیسز ہیں اور ہم اس پر بیٹھ کر اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: نوازشریف کی حاضری چاہیے، وفاقی حکومت جیسے چاہے یقینی بنائے، عدالت

ساتھ ہی اسلام آباد ہائیکورٹ نے کہا کہ درخواست گزار نواز شریف تو پوری قوم سے خطاب کررہا ہے، کیا ہم لکھ سکتے ہیں کہ ملزم نواز شریف کہیں روپوش ہوا ہے؟

دوران سماعت نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کے نمائندے کا بیان ویڈیو لنک کے ذریعے قلم بند کیا جاسکتا ہے، جس پر عدالت نے کہا کہ آئندہ سماعت پر قونصلر اتاشی راؤ عبدالحنان کا ویڈیو لنک کے ذریعے بیان ریکارڈ کیا جائے گا۔

علاوہ ازیں عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے پوچھا کہ ایک آپ کی درخواست ہے اس کا کیا کرنا ہے؟ جس پر جہانزیب بھروانہ کا کہنا تھا کہ اس کو ابھی زیر التوا رکھا جائے، جس پر عدالت نے کہا کہ ہم کارروائی دونوں اپیلوں میں کر رہے ہیں، ہم نیب کی اپیل پر بھی نوٹس جاری کریں گے۔

بعد ازاں کیس کی سماعت 7 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔

خیال رہے کہ نواز شریف کی جانب س دائر اپیلوں پر عدالت نے 10 ستمبر کو مقدمے کی سماعت کے دوران نواز شریف کو سرینڈر کرنے کا حکم دیا تھا اور کہا تھا کہ دوسری عدالت میں انہیں مفرور قرار دیا گیا ہے جبکہ ان کی درخواست کے قابل سماعت ہونے سے متعلق دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت ملتوی کردی گئی تھی۔

بعد ازاں 15 سمتبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کے فیصلے کے خلاف دائر اپیلوں کی سماعت سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی حاضری سے استثنی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کیے جانے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے اسسٹنٹ رجسٹرار نے سیکریٹری خارجہ کو 22 ستمبر کو عدالت میں ان کی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

علاوہ ازیں گزشتہ سماعت پر عدالت نے ریمارکس دیے تھے کہ نوازشریف کو بیرون ملک وفاقی حکومت نے بھیجا، ہمیں نوازشریف کی حاضری چاہیے، وفاقی حکومت جیسے چاہے یقینی بنائے۔

مزید برآں گزشتہ روز وزیراعظم عمران خان نے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کو برطانیہ سے وطن واپس لانے کی ذمہ داری متعلقہ حکام کو سونپ دی تھی۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا جس میں وزیراعظم نے متعلقہ اتھارٹیز کو ہدایات جاری کیں تھیں کہ اس معاملے کی بھرپور پیروی کی جائے، ایک روز بعد ہی اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے حکومت سے یہ پوچھنے کا امکان ہے کہ نواز شریف کو واپس لانے کے کیا اقدامات کیے گئے۔

اس بارے میں ایک کابینہ رکن کا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے برطانوی حکومت کو مسلم لیگ (ن) کے قائد کی واپسی کی درخواست بھیجی جاچکی ہے لیکن اب وہ ایک نئی درخواست بھیجے گی۔

نواز شریف، اہلخانہ کیخلاف ریفرنسز کا پس منظر

خیال رہے کہ العزیزیہ، فلیگ شپ اور ایوین فیلڈ تینوں ریفرنسز 7 لاکھ 85 ہزار آفشور کمپنیوں سے متعلق پاناما پیپرز لیکس کا حصہ ہیں جس پر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)، جماعت اسلامی اور وزیر ریلوے شیخ رشید احمد نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی۔

عدالت عظمٰی نے نواز شریف کو بحیثیت وزیراعظم نااہل قرار دیا تھا اور نیب کو شریف خاندان کے خلاف احتساب عدالت میں 3 ریفرنس اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف ایک ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

جس پر 6 جولائی 2018 کو احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کو ایون فیلڈ ویفرنس میں اس وقت سزا سنادی تھی جب وہ برطانیہ میں کلثوم نواز کی تیمارداری کررہے تھے۔

مزید پڑھیں: وزیراعظم، برطانیہ سے نواز شریف کی جلد از جلد وطن واپسی کے خواہاں

سزا کے بعد شریف خاندان کے اراکین پاکستان آئے جہاں انہیں قید کردیا گیا بعدازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کر کے ضمانت پر رہائی دی۔

دوسری جانب نواز شریف کو احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے 24 دسمبر 2018 کو العزیزیہ ریفرنس میں بھی سزا سنادی تھی، بعدازاں ایک خفیہ طور پر ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں جج نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے نواز شریف کو دباؤ پر سزا سنائی،جس پر جج کو ان کے غلط فعل پر عہدے سے فارغ کردیا گیا تھا۔

گزشتہ برس اکتوبر میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو 8 ہفتوں کے طبی بنیادوں پر ضمانت دی تھی اور اس میں توسیع کے لیے حکومت پنجاب سے رجوع کرنے کی ہدایت کی تھی تاہم صوبائی حکومت نے ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کردی۔

سی ٹی ڈی کی کارروائی میں القاعدہ برصغیر کا 'انتہائی مطلوب دہشتگرد' ہلاک

حکومت کا نیشنل ایمرجنسی ہیلپ لائن کے قیام کا فیصلہ

کراچی میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافہ، اسمارٹ لاک ڈاؤن کی تجویز