دبئی کے صحرا میں مریخ جیسے شہر کی تعمیر کا منصوبہ
دبئی کے صحرا میں مریخ جیسے شہر کی تعمیر کا منصوبہ
متحدہ عرب امارات (یو اےا ی) کا شہر دبئی اپنی فلک بوس عمارتوں اور دیگر اعزازات کے باعث دنیا بھر میں مشہور ہے۔
جہاں فائر فائٹرز جیٹ پیکس استعمال کرتے ہیں، ایسی عمارات ہیں جو بادلوں سے بھی اوپر تک پھیلی ہوئی ہیں۔
اب وہاں ایک اور حیران کن تعمیراتی منصوبے پر کام ہورہا ہے جو دنگ کردینے والا ہے۔
فروری 2017 میں دبئی حکومت کی جانب سے 2117 تک مریخ میں ایک نیا شہر بسانے کا اعلان کیا گیا تھا۔
اسی سال اکتوبر میں دبئی کے صحرائی علاقے میں مریخ جیسے ایک شہر کو تعمیر کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا تھا جس پر ابھی تک باقاعدہ کام تو شروع نہیں ہوا مگر اس کی منصوبہ بندی کو آگے بڑھایا گیا ہے۔
بنیادی طور پر دبئی حکام مریخ پر اپنی کالوجی بنانے سے قبل بئی کے باہر صحرا میں ویسے ہی حالات پر مشتمل ایک شہر تعمیر کرکے زمین کے پڑوسی سیارے میں لوگوں کو بھیجنے کے لیے تربیت فراہم کرنا چاہتے ہیں،
مارس سائنس سٹی دبئی کے صحرا میں ایک لاکھ 76 ہزار اسکوائر میٹر رقبے پر تعمیر کیا جائے گا جو کہ 30 سے زیادہ فٹبال اسٹیڈیمزز سے زیادہ بڑا ہوگا جبکہ اس کی لاگت 13 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز ہوگی۔
محمد بن راشد اسپیس سینٹر (ایم بی آر ایس سی) کی جانب سے مریخ میں شہر بسانے کے لیے ٹیکنالوجی تیار کی جائے گی اور بجارکے انگلز گروپ کو کہا گیا ہے کہ وہ دبئی کے صحرائی علاقے میں ایسے پروٹوٹائپ شہر کی تعمیر کرے۔
اس مقصد کے لیے ماہرین کو جس بڑے چیلنج سے نمٹنا پڑا وہ ایسے ماحول کو ڈیزائن کرنا تھا جو مریخ کو رہائش کے قابل بناسکے۔
مریخ کی آب و ہوا زمین کے مقابلے میں پتلی ہے جبکہ وہاں مقناطیسی میدان بھی نہیں، تو نقصان دہ ریڈی ایشن سے زیادہ تحفظ دستیاب نہیں جبکہ وہاں کا درجہ حرارت بھی ایک مسئلہ ہے جو اوسطاً منفی 81 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔
مریخ کے ماحول میں ہوا کا دباؤ بھی بہت کم ہے تو سیال بہت جلد گیس کے بخارات میں تبدیل ہوجاتا ہے اور وہاں کے منجمد کردینے والے درجہ حرارت کے باوجود غیر محفوظ مااحول میں انسانی خون وہاں ابل سکتا ہے۔
بجرکے اینگلز گروپ سے تعلق رکھنے والے جیکب لینج نے سی این این کو بتایا کہ وہ اور ان کی ٹیم سرخ سیارے میں پیش آنے والے چیلنجز پر قابو پانے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔
اچھے درجہ حرارت اور رہائش کے قابل ہوا کے دباؤ کو برقرار رکھنے کے لیے مریخ کے شہر میں ایسے پریشرائزڈ بائیو ڈومز تیار کیے جائیں گے جو شفاف پولی تھین جھلیوں سے کور ہوں گے۔
اس مریخی شہر میں بجلی کی ضرورت اور گرمائش کے لیے شمسی توانائی کو استعمال کیا جائے گا جبکہ پتلے آب و ہوا سے ان ڈومز کا درجہ حرارت برقرار رکھنے میں مدد مل سکے گی۔
مریخ پر یہ عمارات تھرڈ ڈی پرنٹر کی مدد سے تیار ہوں گی، جس کے لیے سیارے کی سطح کو استعمال کیا جائے گا جبکہ کمرے 20 فٹ سطح کے نیچے تک موجود ہوں گے تاکہ انسان نقصان دہ ریڈی ایشن اور سیارچوں سے محفوظ رہ سکیں۔
اسی طرح زیرسطح عمارات میں مچھلی گھر بھی ہوں گے اور یہ پانی والی کھڑکیاں وہاں رہنے والوں کو ریڈی ایشن سے تحفظ بھی فراہم کریں گی جبکہ زیرسطح کمروں میں روشنی کی آمد بھی ممکن بنائیں گی۔
جیمز لینج کا کہنا تھا کہ زمین کے مقابلے میں کشش ثقل محض ایک تہائی کا ہونے کا مطلب یہ ہے کہ عمارات کی ساخت بہت مختلف ہوگی۔
مریخ کے اس شہر کا ڈیزائن فی الحال کانسیپٹ مرحلے پر ہے مگر دبئی کے صحرا میں اس کی نقل پر مبنی شہر پر ضرور کام شروع ہوچکا ہے۔
زمین پر مارس سائنس سٹی میں تعمیر کی جانے والی مخصوص عمارات کے لیے دباؤ یا آکسیجن کی ضرورت نہیں ہوگی جبکہ ان کو تھری ڈی پرنٹر سے صحرائی ریت کی مدد سے تیار کیا جائے گا۔
مگر مریخ کے گھروں جیسے ڈیزائن کو مدنظر رکھا جائے گا جبکہ وہاں بجلی کی ضرورت شمسی توانائی سے پوری کی جائے گی۔
اس کی تعمیر کا کوئی وقت تو طے نہیں ہوسکا یا کب تک مکمل ہوگا مگر محمد بن راشد اسپیس سینٹر کی جانب سے اس وقت ایک تحقیق پر کام کیا جارہا ہے تاکہ اس کے بجٹ اور حجم کا تعین کرسکے۔
مارس سائنس سٹی محمد بن راشد اسپیس سینٹر کے خلائی پروگرام کا ایک حصہ ہے، گزشتہ سال یو ای اے نے اپنا پہلا خلاباز خلا میٰں بھیجا تھا جبکہ رواں سال جولائی میں ہوپ نامی مشن مریخ پر روانہ کیا گیا۔
مگر دبئی انتظامیہ کو امید ہے کہ مستقبل میں خلابازوں کی تربییت کے لیے مارس سائنس سٹی کو ترجیح دیی جائے گی جہاں وہ مریخ جانے کی تربیت اس سے ملتے جلتے ماحول میں حاصل کرسکیں گے۔