کیا آپ بھی ان والدین میں شامل ہیں جو آج کل اس الجھن کا شکار ہیں کہ اپنے بچوں کو 6 ماہ کے تعلیمی تعطل کے بعد اسکول، کالج اور یونیورسٹی بھیجیں یا نہیں، کیونکہ آپ کے نزدیک ‘جان ہے تو جہاں ہے’۔
یا پھر آپ کا شمار ان والدین میں ہوتا ہے جو اتنے طویل وقفے کے بعد تعلیمی ادارے کھلنے پر بے حد خوش اور پُرجوش ہیں اور ان دنوں بچوں کے ساتھ نئے یونیفارم، کتابیں اور دیگر درسی لوازمات کی خریداری میں مصروف ہیں۔
ممکن ہے آپ ان والدین کی فہرست میں آتے ہوں جن کے نزدیک موجودہ وبائی دور میں تعلیمی اداروں کا کھولنا ‘بچوں کی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہے اور اس کا بہترین حل متبادل، آن لائن طریقہ تعلیم کا فروغ ہے’۔
سچ تو یہ ہے کہ آپ واحد نہیں جو اس کشمکش کا شکار ہوں۔ اس حوالے سے اقوامِ متحدہ کی اگست 2020ء میں جاری کردہ رپورٹ ‘Education during Covid-19 and beyond’ کے مطابق ‘دنیا کے طول و عرض میں پھیلے 190 ممالک میں تقریباً 1 ارب 60 کروڑ طلبہ کا تعلیمی سلسلہ کورونا کی وبا کے باعث بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ عالمی سطح پر تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے رواں سال 94 فیصد طلبہ کا تدریسی عمل تعطل کا شکار ہوا جن میں سے بڑی تعداد کا تعلق ترقی پذیر اور پسماندہ ممالک سے ہے’۔
اندیشہ یہ ہے کہ یہ وبا امیر اور غریب طبقے کے درمیان تعلیمی خلیج کو مزید بڑھا دے گی اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ‘دنیا بھر میں تقریباً 2 کروڑ 30 لاکھ بچے، بچیاں اور نوجوان اپنی درس گاہوں کو مختلف معاشی اور سماجی دباؤ کی وجہ سے خیرباد کہہ دیں گے’۔
اقوامِ متحدہ کے جاری کردہ یہ اعداد و شمار بین الاقوامی سطح پر دانشوروں اور منصوبہ سازوں کے لیے باعثِ تشویش ہیں، تاہم اس وقت مقامی سطح پر درس و تدریس سے وابستہ افراد بشمول والدین، اساتذہ، طلبہ اور انتظامیہ کو جو فکر دامن گیر ہے وہ یہ کہ تعلیمی ادارے کھلنے کے بعد پاکستان میں صحت عامہ کی کیا صورت حال ہوگی؟ بقول ناقدین، جو اسکول برسہا برس گزرنے کے باوجود جوؤں اور لیکھوں پر قابو نہ پاسکے ہوں وہ کورونا جیسے نادیدہ اور مہلک وائرس کی روک تھام کس طرح کرسکیں گے؟
اس وقت جو اندیشہ والدین کو گھیرے ہوئے ہے وہ یہ کہ نوجوان اور بچے کس حد تک سماجی فاصلوں، ماسک اور دیگر حفاظتی اقدامات کے نرغے میں تعلیمی عمل جاری رکھ سکیں گے اور اگر کسی بھی سطح پر غفلت کے باعث کورونا کی دوسری لہر نوجوانوں اور بچوں کے ذریعے ملک میں پھیلی تو اس کے اثرات کتنے دُور رس اور ہلاکت خیز ہوں گے۔
ان حالات میں جہاں ملک بھر میں تعلیمی ادارے بتدریج کھولے جا رہے ہیں، وہاں ابہام، اندیشے اور قیاس آرائیاں ایک فطری عمل ہے۔ دوسری طرف ملک میں اسکول اور کالج کھلنے کے ساتھ کورونا کے بڑھتے کیسز کی خبر بھی گرم ہے جو والدین کو مزید پریشان کیے ہوئے ہے۔
اس لیے اب سوال یہ ہے کہ اس تناظر میں کیا جائے تو کیا؟
جواب ایک ہی ہے، یعنی احتیاط، احتیاط اور احتیاط۔ کیونکہ ‘پرہیز علاج اور پچھتاوے سے بہتر ہے’۔
اسکول، کالج اور یونیورسٹی کی تیاری سے لے کر واپسی تک ہمیں خود کو اور اپنے بچوں کو ایک نئے اور یکسر مختلف معمول کا عادی بنانا ہوگا۔ سو بچوں کے اور آپ کے پاس اپنے اپنے ماسک (کم از کم دو ہوں تاکہ ایک گم ہونے کی صورت میں دوسرا استعمال کیا جاسکے)، ٹشوز اور سینیٹائزر کی موجودگی، ان کے استعمال سے واقفیت اور اہمیت سے آگاہی لازمی ہے۔ اس حوالے سے جہاں بے شمار آن لائن ویڈیوز اور کتابچے موجود ہیں، وہاں اس کا سب سے بہتر طریقہ یہ ہے کہ آپ خود بحیثیت والدین اور استاد ان تمام ایس او پیز پر خوش دلی اور تندہی سے عمل کریں، بالکل ویسے ہی جیسی امید آپ اپنے بچوں اور طلبہ سے رکھتے ہیں۔