افغانستان سے عجلت میں غیرملکی انخلا غیر دانشمندانہ اقدام ہوگا، وزیراعظم
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ وہ تمام فریقین، جنہوں نے افغان امن عمل میں اپنا مثبت کردار ادا کیا، وہ غیر حقیقی ٹائم لائنز کی مخالفت کریں کیونکہ افغانستان سے جلد بازی میں بین الاقوامی (غیرملکی فوجیوں) کا انخلا غیر دانشمندانہ اقدام ہوگا۔
امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا کہ ہمیں ان علاقائی خرابیوں سے بھی بچنا چاہیے جو امن میں کی حالت سرمایہ کاری نہیں کرتے ہیں اور افغانستان میں عدم استحکام کو اپنے جغرافیائی سیاسی مقاصد کے لیے فائدہ مند سمجھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا اور افغان طالبان کے درمیان امن معاہدہ ہوگیا،14 ماہ میں غیر ملکی افواج کا انخلا ہوگا
انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ 'امریکا کی طرح پاکستان کبھی بھی افغانستان کو بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز بنتے نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ نائن الیون کے بعد سے اب تک 80 ہزار سے زائد پاکستانی سیکیورٹی اہلکار اور عام شہری دہشت گردی کے خلاف اپنی جانیں دے چکے ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 'لیکن پاکستان اب بھی افغانستان میں قائم بیرونی طور پر فعال دہشت گرد گروہوں کے ذریعے حملوں کے نشانے پر ہے'۔
'واشنگٹن پوسٹ' میں شائع کالم میں وزیر اعظم عمران خان نے افغانستان میں جنگ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کے معاشی، اقتصادی اور معاشرتی مسائل پر اپنا نقطہ نظر پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ افغانستان میں جنگ کے دوران سب سے بڑی قیمت پاکستان کے لوگوں نے ادا کی، 40 لاکھ افغان پناہ گزینوں کو رہائش دی، ملک میں اسلحہ اور منشیات پھیلی، اقتصادی شرح متاثر ہوئی اور پاکستان 60 یا 70 کی دہائی والا نہیں رہا۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 'اس تجربے نے ہمیں دو اہم سبق سیکھائے پہلا یہ کہ ہم جغرافیہ، ثقافت اور رشتہ داری کے ذریعے افغانستان سے بہت قریب ہیں اور ہمیں احساس ہوا کہ جب تک ہمارے افغان بہن بھائی امن میں نہیں ہوں گے پاکستان کو حقیقی امن نہیں ملے گا۔
مزیدپڑھیں: دوحہ: افغان حکومت اور طالبان میں امن مذاکرات کا آغاز
انہوں نے کہا کہ ہم نے یہ بھی سیکھا کہ افغانستان میں امن اور سیاسی استحکام کو طاقت کے استعمال سے مسلط نہیں کیا جاسکتا ہے صرف افغانستان کی سیاسی حقائق کو تسلیم کرنے والے افغان اور افغانستان کی زیرقیادت مفاہمت کا عمل ہی دیرپا امن قائم کرسکتا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 'چنانچہ جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مجھ سے 2018 کے آخر میں افغانستان میں سیاسی تصفیے کے حصول میں مدد کی درخواست کی تو ہمیں امریکی صدر کو اطمینان دلانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی'۔
انہوں نے کہا کہ 'ہم نے ایسا ہی کیا اس طرح امریکا اور طالبان کے مابین مشکل مذاکرات کا آغاز ہوا جس کا اختتام فروری میں امریکی طالبان کے امن معاہدے پر ہوا اس معاہدے کے نتیجے میں افغان قیادت اور طالبان کے مابین مذاکرات کی بنیاد رکھی گئی ہے'۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ 'ہم نے یہاں تک پہنچنے کے لیے جو راستہ طے کیا تھا وہ آسان نہیں تھا لیکن ہمت اور لچک کی بدولت ہم دباؤ ڈال سکے جو ہر طرف سے ظاہر تھا'۔
انہوں نے کہا کہ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے کابل اور طالبان کے مابین قیدیوں کے تبادلے میں آسانی پیدا کی اور افغانستان کی حکومت اور طالبان نے افغان عوام کے امن کے لیے مثبت جواب دیا۔
مزیدپڑھیں: امریکی وفد کی آرمی چیف سے ملاقات، افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار کو سراہا
وزیراعظم نے اُمید ظاہر کی کہ انٹرا افغان مذاکرات اور بھی مشکل ہوسکتے ہیں جس کے لیے ہر طرف سے صبر اور سمجھوتے کی ضرورت ہے اور پیشرفت سست اور محنت طلب ہوسکتی ہے یہاں تک کہ کبھی کبھار تعطل بھی ہوسکتا ہے کیونکہ افغانی اپنے مستقبل کے لیے مل کر کام کرتے ہیں ایسے وقتوں میں ہمیں یہ بات اچھی طرح سے یاد رکھنی چاہیے کہ مذاکرات کی میز پر تعطل دراصل میدان جنگ میں خونی تعطل سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ "پرسوں" کے لیے منصوبہ بندی شروع کی جائے، پائیدار امن کے لیے دنیا کے بعد افغانستان کے معاملات میں کس طرح مدد مل سکتی ہے؟ ہم ایسے حالات کس طرح پیدا کریں گے جو پاکستان اور دیگر ممالک میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کو وقار اور عزت کے ساتھ اپنے وطن واپس جانے کے قابل بنائے؟
پاکستان کے لیے میرا وژن رابطے اور معاشی سفارت کاری کے ذریعے اپنے ملک اور ہمارے خطے کی ترقی اور خوشحالی کو ترجیح دیتا ہے، کلیدی اقتصادی رابطوں کے منصوبوں میں ہماری حالیہ سرمایہ کاری کا فائدہ جنوبی اور وسطی ایشیا کے مابین علاقائی اتحاد کے لیے کوششوں کی تکمیل سے ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ ان امور پر امریکی بین الاقوامی ترقیاتی فنانس کارپوریشن کے ساتھ ہماری ابتدائی گفتگو حوصلہ افزا رہی۔، یہ خوشی کی بات ہے کہ امریکا اور پاکستان، افغانستان میں پائیدار امن کو یقینی بنانے کے لیے 'امن قائم کرنے' سے متعلق اہمیت پر ایک ہی طرح سوچ رہے ہیں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ 'آئند دنوں' کے لیے منصوبہ بندی شروع کردیں کہ دنیا افغانستان میں پائیدار امن کے لیے کس طرح مدد کرسکتی ہے؟ ہم کیسے ایسے حالات پیدا کریں گے جو پاکستان اور دیگر ممالک میں مقیم لاکھوں افغان مہاجرین کو وقار اور عزت کے ساتھ اپنے وطن واپس جانے کے قابل بنائے؟
واضح رہے کہ پاکستان مسلسل افغانستان میں فریقین کے درمیان بین الافغان مذاکرات کے آغاز اور ملک میں دیرپا امن و استحکام کے لیے افغان امن عمل کو آگے بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتا اور اس حوالے سے ہر ممکن تعاون فراہم کرنے کی پیشکش کرتا آیا ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال 29 فروری کو امریکا اور طالبان کے درمیان امن معاہدے میں بین الافغان مذاکرات طے پائے تھے، اس وقت اس معاہدے کو 40 سال سے جاری جنگ میں امن کا بہتری موقع قرار دیا گیا تھا۔
ابتدائی طور پر یہ توقع کی جارہی تھی کہ 29 فروری کو معاہدے کے چند ہفتوں میں مذاکرات کا آغاز ہوجائے گا تاہم شروع سے ہی اس ٹائم لائن میں تاخیر کے باعث خلل پڑنا شروع ہوگیا تھا۔
امریکا کے ساتھ ہوئے طالبان کے معاہدے میں سے قبل ہی یہ طے کیا گیا تھا کہ افغان حکومت 5 ہزار طالبان قیدیوں کو رہا کرے گی جبکہ طالبان بدلے میں ایک ہزار حکومتی اور عسکری اہلکاروں کو اپنی حراست سے چھوڑیں گے تاہم اس میں مسائل کا سامنا رہا اور افغان حکومت اس سے گریز کرتی نظر آئی۔
مزید یہ کابل میں جاری سیاسی بحران نے مذاکرات کو مزید تاخیر کا شکار بنادیا کیونکہ وہاں افغان صدر اشرف غنی اور ان کے حریف عبداللہ عبداللہ نے متنازع صدارتی انتخابات میں ایک دوسرے پر فتح کا اعلان کردیا۔
یہ بھی پڑھیں: شمالی افغانستان میں طالبان کا حملہ، 14افغان سیکیورٹی اہلکار ہلاک
بعد ازں اس بحران کو ختم کرنے کے لیے اختیارات کے تبادلے کے معاہدے کے حصے کے طور پر عبداللہ عبداللہ کو امن مذاکرات کی نگرانی کرنے والی اعلیٰ کونسل برائے قومی مفاہمت کا سربراہ نامزد کردیا گیا۔
تاہم اس کے بعد طالبان کی جانب سے تشدد کم کرنے سے انکار نے مذاکرات کے آغاز میں مزید رکاوٹ ڈال دی۔
بعد ازاں دونوں فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی بھی دیکھنے میں آئی تھی اور طالبان کے 6 قیدیوں کی آخری رکاوٹ دور ہونے کے بعد قطر کی وزارت خارجہ نے مذاکرات کے آغاز کا اعلان کیا تھا۔