افغانستان میں خواتین کا پہلا 'فٹنس کلب' قائم
قدامت پسند ملک افغانستان میں جہاں خواتین کی جانب سے کھیلوں میں حصے لیے جانے کو بھی معیوب سمجھا جاتا ہے، وہاں پہلی بار باحجاب خواتین کے لیے 'فٹنس کلب' قائم کردیا گیا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق ماضی میں طالبان کے گڑھ رہنے والے افغانستان کے جنوبی صوبہ قندھار کے دارالحکومت میں 'فٹنس کلب' قائم کیا گیا ہے، جہاں بیک وقت 50 خواتین ورزش کر سکتی ہیں۔
قندھار میں 'فٹنس کلب' کا قیام خواتین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی سماجی رہنما 36 سالہ مریم درانی کی جانب سے کیا گیا، جو خواتین کا ایک خصوصی ریڈیو اسٹیشن بھی چلاتی ہیں۔
مریم درانی کو 2012 میں سابق امریکی خاتون اول مشیل اوباما 'انٹرنیشنل ویمن آف کریج ایوارڈ' سے بھی نواز چکی ہیں جب کہ وہ خواتین کے لیے مفت قانونی خدمات بھی فراہم کرتی ہیں۔
خواتین کے لیے 'فٹنس کلب' کھولنے کے حوالے سے مریم درانی کا کہنا تھا کہ ان کے فیصلے پر مَردوں نے شدید برہمی کا اظہار کیا ہے جب کہ خواتین ان کے فیصلے سے بہت خوش ہیں۔
انہوں نے مَردوں کی جانب سے 'فٹنس کلب' پر غصے کا اظہار کرنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر مَردوں کا خیال ہے کہ فٹنس کلب بھی مغرب کی سازش ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغان خواتین کی تاریخی کامیابی
مریم درانی کے مطابق کئی مَردوں نے ان کی جانب سے 'فٹنس کلب' کھولنے کو شریعت کے خلاف قرار دیتے ہوئے ان کی تضحیک کرنا شروع کردی ہے، تاہم اس کے باوجود انہوں نے ہمت نہیں ہاری۔
مریم درانی کی جانب سے 'فٹنس کلب' کھولے جانے کے چند ہی دن بعد درجنوں خواتین نے اپنی جسمانی صحت بہتر بنانے کے لیے رجسٹریشن کرائی اور وہ حجاب کے ساتھ کلب میں ورزش کے لیے آتی ہیں۔
'فٹنس کلب' میں مَردوں کا داخلہ ممنوع ہے، جب کہ ورزش کے لیے آنے والی زیادہ تر خواتین بھی با پردہ ہیں اور وہ حجاب اور برقع میں ہی کلب آنا اور ورزش کرنا پسند کرتی ہیں۔
قندھار میں خواتین کے لیے 'فٹنس کلب' کا قیام ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب کہ طالبان اور امریکی حکومت کے درمیان تاریخی مذاکرات قطر میں شروع ہوچکے ہیں۔
مزید پڑھیں: طالبان سے مذاکرات کیلئے افغان حکومتی وفد میں 5 خواتین بھی شامل
طالبان اور امریکا کے درمیان ہونے والے تاریخی مذاکرات میں افغانستان اور امریکا سمیت کئی ممالک کے نمائندے بھی شریک ہیں اور پہلی بار طالبان کی قیادت مذاکرات میں شامل خواتین کے سامنے بیٹھ کر بات کرنے کو رضامند ہوئی۔
طالبان سے مذاکرات کرنے والی افغان حکومت کی ٹیم میں کم از کم 5 خواتین ارکان بھی شامل ہیں جو طالبان کی مرد مذاکراتی ٹیم کے سامنے بیٹھ کر خدمات سر انجام دیتی ہیں۔