موٹروے ریپ کیس: مرکزی ملزم کی عدم گرفتاری پر قائمہ کمیٹی کا اظہار برہمی
لاہور: رپورٹس کے مطابق سینیٹ کمیٹی برائے انسانی حقوق نے موٹروے گینگ ریپ واقعے کو 3 ہفتے گزر جانے کے باوجود کیس کے مرکزی ملزم کی گرفتاری میں پولیس کی ناکامی پر برہمی کا اظہار کیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سینیٹ کمیٹی کی کنوینر قرۃ العین مری اور سینیٹر کیشو بائی نے جائے وقوع کا دورہ بھی کیا جہاں 2 مبینہ ملزمان عابد ملہی اور شفقت علی نے 9 ستمبر کو ایک خانوں کا ان کے 3 بچوں کے سامنے ریپ کیا تھا۔
سول لائنز ایس پی انویسٹی گیشن اسد الرحمٰن اور ایس پی آپریشن صفدر رضا کیانی سینیٹرز کے ہمراہ جائے وقوع پر گئے۔
یہ بھی پڑھیں:سرچ آپریشنز موٹروے گینگ ریپ کے مرکزی ملزم کا سراغ لگانے میں ناکام
ذرائع کا کہنا تھا کہ پولیس افسران نے دورہ کرنے والی ٹیم کو بریف کیا اور کہا کہ انہوں نے 2 میں سے ایک اہم ملزم کو گرفتار کرلیا ہے تاہم سینیٹ کمیٹی نے مرکزی ملزم کے بارے میں پولیس سے پوچھے گئے سوال کا جواب نہ ملنے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔
اس اندوہناک واقعے کے تقریباً ایک ہفتے بعد سینیٹ کمیٹی برائے داخلہ نے پنجاب پولیس کے لیے گینگ ریپ واقعے سے متعلق 30 سوالات اٹھائے تھے لیکن زیادہ تر کے اب تک جواب نہیں دیے جاسکے۔
قبل ازیں حکومت پنجاب کی تشکیل دی گئی تفتیشی ٹیم کے سربراہ شہزادہ سلطان نے سینیٹرز کو سیکریٹریٹ میں ہونے والے اجلاس کے بارے میں آگاہ کیا۔
مزید پڑھیں: موٹروے ریپ کیس میں نامزد 'ملزم' نے گرفتاری دے دی، الزامات مسترد
انہوں نے کیس میں ہونے والی پیش رفت اور مفرور مجرم کی گرفتاری کے لیے لاہور پولیس کی کوششوں سے آگاہ کیا۔
لاہور کے تفتیشی افسر ذیشان اصغر، جنہیں وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے میڈیا کو موٹروے واقعے پر بریف کرنے کے لیے بطور فوکل پرسن تعینات کیا گیا، نے سینیٹرز کی تشویش پر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔
تاہم ایک سینئر پولیس اہلکار نے بتایا کہا عابد ملہی گرفتاری سے بچنے کے لیے صوبے کے دور دراز دیہی علاقوں میں روپوش ہوسکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس ماہرین نے ملزم کے اہلِ خانہ، رشتہ داروں اور دوستوں سے پوچھ گچھ کے بعد ملزم کا ایک تفصیلی پروفائل تیار کیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے واقعہ: حکومت ہوش کے ناخن لے اور پولیس میں سیاسی مداخلت روکے، چیف جسٹس
اس کے ٹھکانے کے بارے میں پولیس عہدیدار نے کہا کہ حکام نے ان اضلاع میں تعینات کیے گئے سیکیورٹی اہلکاروں کی تعداد کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جہاں اس کے روپوش ہونے کا امکان ہے، یہ حکمت عملی اس لیے اپنائی جارہی ہے تاکہ اسے اپنے مقام سے باہر نکلنے کا موقع ملے۔
موٹروے ریپ کیس میں اب تک کیا ہوا؟
خیال رہے کہ 9 ستمبر کو منگل اور بدھ کی درمیانی شب لاہور-سیالکوٹ موٹروے پر گجرپورہ کے علاقے میں 2 مسلح افراد نے ایک خاتون کو اس وقت گینگ ریپ کا نشانہ بنایا تھا جب وہ وہاں گاڑی بند ہونے پر اپنے بچوں کے ہمراہ مدد کی منتظر تھی۔
واقعے کی سامنے آنے والی تفصیل سے یہ معلوم ہوا تھا کہ لاہور کی ڈیفنس ہاؤسنگ سوسائٹی کی رہائشی 30 سال سے زائد عمر کی خاتون اپنے 2 بچوں کے ہمراہ رات کو تقریباً ایک بجے اس وقت موٹروے پر پھنس گئیں جب ان کی گاڑی کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔
اس دوران خاتون نے اپنے ایک رشتے دار کو بھی کال کی تھی، جس نے خاتون کو موٹروے ہیلپ لائن پر کال کرنے کا کہا تھا جبکہ وہ خود بھی جائے وقوع پر پہنچنے کے لیے روانہ ہوگیا تھا۔
تاہم جب خاتون مدد کے لیے انتظام کرنے کی کوشش کر رہی تھیں تب 2 مرد وہاں آئے اور انہیں اور ان کے بچوں (جن کی عمر 8 سال سے کم تھی) بندوق کے زور پر قریبی کھیت میں لے گئے، بعد ازاں ان مسلح افراد نے بچوں کے سامنے خاتون کا ریپ کیا، جس کے بعد وہ افراد جاتے ہوئے نقدی اور قیمتی سامان بھی لے گئے۔
اس واقعے کے بعد جائے وقوع پر پہنچنے والے خاتون کے رشتے دار نے اپنی مدعیت میں واقعے کا مقدمہ بھی تھانہ گجرپورہ میں درج کروایا تھا۔
تاہم اس واقعے کے بعد سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے ایک ایسا بیان دیا تھا جس نے تنازع کھڑا کردیا اور عوام، سول سوسائٹی اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ مسلم لیگ (ن) نے ان کو ہٹانے کا مطالبہ کیا تھا۔
سی سی پی او نے کہا تھا کہ 'خاتون رات ساڑھے 12 بجے ڈیفنس سے گوجرانوالہ جانے کے لیے نکلیں، میں حیران ہوں کہ تین بچوں کی ماں ہیں، اکیلی ڈرائیور ہیں، آپ ڈیفنس سے نکلی ہیں تو آپ جی ٹی روڈ کا سیدھا راستہ لیں اور گھر چلی جائیں اور اگر آپ موٹروے کی طرف سے نکلی ہیں تو اپنا پیٹرول چیک کر لیں'۔
یہ بھی پڑھیں: موٹروے پر مدد کی متلاشی خاتون کا 'ڈاکوؤں' نے 'گینگ ریپ' کردیا
بعدازاں انسپکٹر جنرل (آئی جی) پولیس انعام غنی نے موٹروے پر اجتماع زیادتی کا شکار خاتون سے متعلق متنازع بیان پر کیپیٹل سٹی پولیس افسر لاہور عمر شیخ کو شوکاز نوٹس جاری کیا تاہم 14 ستمبر کو انہوں نے اپنے بیان پر معذرت کرلی تھی۔
یہی نہیں واقعے کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا تھا جس پر حکومت بھی ایکشن میں آئی تھی اور آئی جی پنجاب پولیس نے مختلف تحقیقاتی ٹیمیں تشکیل دی تھیں جبکہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے بھی صوبائی وزیرقانون راجا بشارت کی سربراہی میں ایک خصوصی کمیٹی بنائی تھی۔
علاوہ ازیں 12 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے آئی جی پنجاب انعام غنی و دیگر کے ہمراہ پریس کانفرنس میں بتایا تھا کہ 72 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں اصل ملزمان تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔
ساتھ ہی اس موقع پر بتایا گیا تھا کہ واقعے کے مرکزی ملزم کی شناخت عابد علی کے نام سے ہوئی اور اس کا ڈی این اے میچ کرگیا ہے جبکہ اس کی گرفتاری کے لیے کوششیں جاری ہیں، اس کے علاوہ ایک شریک ملزم وقار الحسن کی تلاش بھی جاری ہے۔
تاہم 13 ستمبر کو شریک ملزم وقار الحسن نے سی آئی اے لاہور میں گرفتاری دیتے ہوئے اپنے اوپر لگائے گئے الزامات کی تردید کی تھی۔
14 ستمبر کو وزیراعلیٰ پنجاب نے بتایا کہ خاتون کے ریپ میں ملوث ملزم شفقت کو گرفتار کرلیا ہے جس کا نہ صرف ڈی این اے جائے وقوع کے نمونوں سے میچ کرگیا بلکہ اس نے اعتراف جرم بھی کرلیا ہے۔
15 ستمبر کو لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت نے سیالکوٹ موٹر وے پر دوران ڈکیتی خاتون سے زیادتی کے ملزم کو 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔
اسی روز پولیس نے شریک ملزم شفقت علی کی جانب سے دوران تفتیش فراہم کی گئی معلومات پر تیسرا ملزم اقبال عرف بالا کو گرفتار کرلیا تھا۔
16 ستمبر کو پنجاب پولیس کی جانب سے مرکزی ملزم کو ملک چھوڑنے سے روکنے کے لیے کی جانے درخواست کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے اس کا نام 'بلیک لسٹ' میں ڈال دیا تھا۔
17 ستمبر کو یہ بات سامنے آئی تھی کہ پولیس نے ملزم کی اہلیہ بشریٰ کو حراست میں لیا جس نے اپنے ابتدائی بیان میں کہا کہ اسے عابد کے بارے میں کچھ نہیں معلوم اور اس کا ان سے رابطہ نہیں ہوا۔
اس کے علاوہ اسی روز عابد ملہی کےدیگر 5 رشتہ داروں کو بھی حراست میں لیا گیا۔