دنیا

لبنان کے نئے وزیر اعظم مصطفیٰ ادیب بھی مستعفی

غیر جماعتی کابینہ کے قیام میں مشکلات پر مصطفیٰ ادیب اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ کے اندر ہی مستعفی ہو گئے۔

لبنان کے وزیر اعظم مصطفیٰ ادیب نے وزارت خزانہ کے امیدوار سمیت غیر جماعتی کابینہ کے قیام میں مشکلات پر اقتدار سنبھالنے کے ایک ماہ کے اندر ہی وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیا۔

ہفتے کو ٹی وی پر اپنے خطاب میں مصطفیٰ ادیب نے کہا کہ وہ صدر مشعل عون کی جانب سے دیے گئے حکومت کے قیام کے احکامات سے مستعفی ہوتے ہیں۔

مزید پڑھیں: بیروت دھماکے: لبنانی وزیراعظم کابینہ سمیت مستعفی

بیروت میں پورٹ پر دھماکے میں لگ بھگ 200 افراد کی ہلاکت کے بعد حسن دیب کی سابقہ حکومت نے استعفیٰ دے دیا تھا اور جرمنی کے لیے لبنان کے سابق سفیر مصطفیٰ ادیب کو 31 اگست کو حکومت کے قیام کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔

البتہ دو اہم جماعتوں حزب اللہ اور ان کے اتحادی امل موومنٹ کی جانب سے شیعہ وزرا کو کابینہ میں شامل کرنے کے مطالبات کے سبب وزیر اعظم کو حکومت کے قیام میں شدید مشکلات کا سامنا تھا۔

مصطفیٰ ادیب سنی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں جس کی وجہ سے اہل تشیع جماعتوں اور رہنماؤں کو خدشہ تھا کہ انہیں بالکل نظر انداز کردیا جائے گا اور انہوں نے اپنے وزرا کی تقرری کا مطالبہ کیا تھا، جہاں ان میں سے کچھ سیاستدان مخصوص دھڑوں کے لیے کٹھ پتلی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: لبنان میں حکومت مخالف احتجاج، پولیس کی مظاہرین پر آنسو گیس شیلنگ

مصطفیٰ ادیب نے ایک ایسے موقع پر استعفیٰ دیا ہے جب چند دن قبل ہی ملک کے صدر نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ اگر لبنان میں نئی حکومت جلد قائم نہ ہوئی تو یہ جہنم بن جائے گا۔

یہ فرانس کے صدر ایمانوئیل میکرون کے لیے بھی بڑا دھچکا ہے جو لبنان میں سیاسی استحکام کے قیام کے لیے کوشاں تھے کیونکہ 1975 سے 1990 تک جاری خانہ جنگی کے بعد حالیہ عرصے میں لبنان کو تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے۔

سیاسی جماعتوں نے میکرون سے وعدہ کیا تھا کہ ستمبر کے وسط تک نئی حکومت قائم ہو جائے گی لیکن یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا۔

رپورٹس کے مطابق شیعہ جماتیں وزارت خزانہ چاہتی تھیں جس کی وجہ سے ڈیڈ لاک برقرار تھا اور ان جماعتوں کا ماننا تھا کہ یہ وزارت ان کے مسلک کا حق ہے۔

مزید پڑھیں: مصطفیٰ ادیب لبنان کے نئے وزیراعظم، فوری اصلاحات، آئی ایم ایف معاہدے پر زور

مصطفیٰ ادیب ملک کو بحران سے نکالنے کے لیے ماہرین پر مشتمل حکومت تشکیل دینا چاہتے تھے لیکن مسلکی گروہ بندی کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکے۔

ملک کے ممتاز سنی رہنما سعد الحریری نے کہا کہ جو کوئی بھی ملک میں نئی حکومت کے قیام کی فرانس کی کوششوں کی ناکامی پر خوشیاں منا رہا ہے وہ یہ نادر موقع گنوانے پر پچھتائے گا اور ہم ایسے لوگوں کو کہتے ہیں کہ آپ اپنی انگلیاں دانتوں تلے دبا کر پچھتائیں گے۔

ادھر امل موومنٹ کے رہنما اور پارلیمنٹ کے اسپیکر نبیح بیری نے کہا کہ وہ نامزد وزیر اعظم کے استعفے کے باوجود فرانس کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی پیروی کے لیے تیار ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بیروت دھماکے میں ہلاکتوں کی تعداد 135 سے تجاوز کر گئی، 5 ہزار زخمی

بیروت میں 2 ہزار ٹن سے زائد امونیم نائٹریٹ کے دھماکے میں لگ بھگ 200 افراد ہلاک اور 6 ہزار سے زائد زخمی ہوئے تھے جس کے بعد عوام نے حکومت سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا تھا۔

دھماکے اور مہینوں سے جاری معاشی بحران کے باعث لبنان میں پیدا ہونے والے سیاسی تنازع کے سبب عوام نے حکومت کو نااہل قرار دیتے ہوئے ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا تھا اور سابق وزیر اعظم کے استعفے کے بعد مصطفیٰ ادیب کو وزارت عظمیٰ کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔