نقطہ نظر

پیک ڈسٹرکٹ، جہاں وقت کی رفتار آہستہ ہوجاتی ہے

پہاڑوں کے دامن میں بہتے شفاف پانی سے ترتیب پاتا مدہم سا ترنم اور دریا میں تیرتی بطخوں کی موجودگی پرفیکٹ ہالیڈے کیلئے کافی سامان ہے

پیک ڈسٹرکٹ، جہاں وقت کی رفتار آہستہ ہوجاتی ہے

تحریر و تصاویر: احمد شاہین

برطانیہ میں کورونا وائرس کی وجہ سے پیدا ہونے والی صورتحال اب قدرے کنٹرول میں ہے۔ پابندیاں ایک ایک کرکے ختم یا نرم ہوچکی ہیں اور معمولاتِ زندگی بحال ہورہے ہیں۔

اگرچہ رفتار قدرے سست ہے لیکن عبادت گاہیں، شاپنگ سینٹرز اور ریسٹورنٹس کے بعد اب ایکسرسائز جم بھی کھول دیے گئے ہیں اور حکومت کی جانب سے عوامی مقامات پر جانے اور زندگی کو نارمل کرنے کے لیے لوگوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جارہی ہے جس کی ایک دلچسپ کڑی یہ رہی کہ ماہِ اگست میں ریسٹورنٹ پر جاکر کھانا کھانے پر 50 فیصد بل حکومت نے خود ادا کرنے کا اعلان کیا۔

یہ اور اس جیسے دیگر اقدامات لوگوں کے ذہنوں سے خوف نکالنے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔ البتہ حفاظتی اقدامات اور مسلسل آگہی پر اب بھی زور دیا جارہا ہے تاکہ کورونا وائرس کے دوبارہ حملہ سے بچا جاسکے۔ کچھ شہر یا ایسے علاقے جہاں دوبارہ کورونا کیسز میں غیر معمولی اضافہ دیکھنے کی اطلاع ملتی ہے، وہاں جزوی یا ’اسمارٹ‘ لاک ڈاؤن بھی کیا جارہا ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ لوگوں کو اپنے معمولاتِ زندگی، نارمل انداز میں گزارنے کی ترغیب بھی دی جارہی ہے کہ شاید اب کورونا کے ساتھ ہی زندگی گزارنے کی عادت ڈالی جائے۔

بیشتر سیاحتی مقامات بھی مکمل طور پر کھل چکے ہیں، البتہ سیاحوں کو حفاظتی اقدامات اپنانے کی سختی سے تاکید کی جارہی ہے۔ یوں تو مکمل لاک ڈاؤن کے دنوں میں بھی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں نے زیادہ وقت ٹک کر نہیں بیٹھنے دیا، لیکن بہرحال شہر سے باہر سفر کیے ہوئے کافی دن ہوگئے تھے، چناچہ فیصلہ ہوا کہ آوارہ گردی کے معمول کا دوبارہ سے اعادہ کرتے ہوئے، لندن سے باہر کا رخ کیا جائے۔

اس سلسلے میں کچھ آن لائن ریسرچ اور کچھ ٹیلی فون کے ذریعے اکٹھی کی گئی معلومات کے باعث قرعہ فال ’پیک ڈسٹرکٹ‘، Peak District کے نام نکلا، جس کی ایک بہت بڑی وجہ دیگر نمایاں سیاحتی مقامات کی نسبت لندن سے کچھ قریب ہونا بھی تھا۔

انگلینڈ میں موجود 5 کاونٹیز میں پھیلا، وسیع و عریض علاقہ پیک ڈسٹرکٹ کہلاتا ہے، جسے برطانیہ کا سب سے پہلا باقاعدہ نیشنل پارک ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ پیک ڈسٹرکٹ کو یہ درجہ 1951ء میں ملا اور تب سے ہی یہ علاقہ سیاحوں کی خصوصی توجہ کا مرکز ہے۔

بلاشبہ اور درست طور پر پاکستانی قارئین کے ذہن میں ’پیک‘ کا نام سن کر بلند و بالا پہاڑ ہی آنے چاہئیں۔ پھر ’کے ٹو‘ اور نانگا پربت جیسے دیو قامت پہاڑ اور ہنزہ، کاغان، گلگت جیسی اونچائیوں پر موجود وادیاں رکھنے والے ملک کے سامنے بھلا برطانیہ کیا بیچتا ہے، جس کی پہاڑوں سے منسوب ڈسٹرکٹ کا سب سے اونچا پوائنٹ بھی محض 636 میٹر ہی بلند ہے۔ جبکہ پاکستان میں ہر کسی کے لیے آسان رسائی اور پہاڑی علاقوں کے سفر کا دروازہ سمجھی جانے والی وادی ’مری‘ کی اونچائی ہی 2 ہزار میٹر سے زیادہ ہے۔ لہٰذا مقابلہ تو بالکل نہیں بنتا۔

بہرحال ایسا نہیں کہ برطانیہ میں اونچے پہاڑ موجود نہیں، لیکن پھر وہی بات کہ پاکستانیوں کے لیے یہ محض راہ کے ٹیلے ہی ثابت ہوتے ہیں۔ برطانیہ کی سب سے اونچی چوٹی، بین نویس ہے جو اسکاٹ لینڈ میں موجود ہے۔ اس کی اونچائی ایک ہزار 345 میٹر ہے، یعنی یہ بھی مری کے پہاڑوں کے مقابلے میں پستہ قد نظر آتی ہے۔ اور اگر بات کریں انگلینڈ کی تو یہاں کی سب سے اونچی جگہ لیک ڈسٹرکٹ (Lake District) میں پائی جانے والی اسکافل پائیک ہے جو 978 میٹر بلند ہے۔

خیر، سیر تو سیر ہے چاہے کہیں کی بھی ہو۔ لہٰذا ہم نے بھی پاکستان کے فیری میڈوز اور دیوسائی کو ذہن سے جھٹکتے ہوئے اپنا فوکس، پیک ڈسٹرکٹ پر رکھتے ہوئے تیاری شروع کردی۔ نہ صرف حسین قدرتی مناظر بلکہ اس علاقے میں موجود تاریخی عمارتیں اور رہائشی محلے بھی سیاحوں کو یہاں کھینچنے کا باعث ہیں۔ عموماً فلموں میں بھی جب قدیم دور کا انگلستان یا یہاں کے دیہی علاقے اور روایتی طرزِ زندگی دکھانا مقصود ہو تو پیک ڈسٹرکٹ میں موجود لوکیشنز اس مقصد کو بخوبی پورا کرتی ہیں۔ پرائیڈ اینڈ پریجوڈس (Pride & Prejudice)، جین آئیر (Jane Eyre) اور ایلزبتھ (Elizabeth) جیسی کلاسک برطانوی فلمیں، پیک ڈسٹرکٹ ہی میں فلمائی گئی ہیں۔

انگلینڈ کی کاؤنٹی، ڈربی شائر کا بیشتر حصہ بھی لیک ڈسٹرکٹ میں شامل ہے۔ یہاں پہنچنے پر ہمارا پہلا پڑاؤ ڈوو ڈیل (Dovedale) تھا۔ یہ جگہ برطانیہ کے دیگر سیاحتی مقامات سے کافی مختلف ہے اور میں نے برطانیہ میں اپنی اب تک کی آوارہ گردی کے دوران ایسا نظارہ اور کہیں نہیں دیکھا۔

اس کی مثال پاکستان میں موجود کوہالہ پل کے قریب موجود پکنک اسپاٹ سے دی جاسکتی ہے جہاں آپ بلاخطر دریا کے کنارے موجود پانی میں اتر سکتے ہیں اور اٹھکیلیاں کرسکتے ہیں۔ دریا کا پاٹ اگرچہ پاکستانی دریاؤں کی طرح بہت چوڑا نہیں اور بہاؤ بھی تیز نہیں لیکن کچھ وقت کے لیے قدرت سے قریب ترین ہونے کو محسوس کرنے کے لیے اچھی جگہ ہے۔

دن روشن اور دھوپ میں کچھ حرارت ہو تو برطانیہ میں رہنے والے اسے ایک اچھا دن تصور کرتے ہیں اور اسی مناسبت سے ہمارے لیے یہ دن کافی اچھا تھا۔ اگرچہ راستے میں کچھ مقامات پر برطانیہ کی روایتی بارش نے استقبال کیا لیکن ڈوو ڈیل پہنچے تو سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمکتا ہوا ملا۔ لوگوں کی بڑی تعداد وادی کے بیچوں بیچ گزرنے والے مختصر سے دریا کے دونوں جانب موجود تھی اور اکثر لوگ چٹایاں اور پکنک کیمپس ساتھ لے کر آئے تھے تاکہ اچھی طرح یہاں زیادہ وقت گزار سکیں۔

یہاں کی ایک خاص بات دریا کو پار کرنے کے لیے ترتیب سے رکھے گئے پتھر ہیں جنہیں، اسٹیپنگ اسٹونز (stepping stones) کہتے ہیں اور رش کے دنوں میں ان سے گزرنے کا شوق پورا کرنے کے لیے باقاعدہ دونوں اطراف قطاریں لگتی ہیں۔ یہ قدرتی طور پر ابھرنے والے پتھر تو نہیں لیکن پھر بھی یہاں آنے والوں کے لیے ایک اچھی دلچسپ سرگرمی ہے۔ سرسبز پہاڑوں کے دامن میں صاف شفاف بہتا پانی، اس پانی سے ترتیب پاتا مدہم سا ترنم اور دریا میں تیرتی بطخوں کی اٹھکیلیاں، یقیناً یہ سب کچھ ایک پرفیکٹ ہالیڈے کے لیے اچھا سامان مہیا کرتی ہیں۔

یہاں کچھ دیر گزار کر اور گھر سے لائے گئے سینڈوچز و دیگر اسنیکس پر ہاتھ صاف کرنے کے بعد ہوٹل کا رخ ہوا جو یہاں سے قریب ہی پیک ڈسٹرکٹ کے ایک خاموش اور پُرسکون چھوٹے سے شہر ‘لیک‘ Leek میں موجود تھا۔ حسین نظاروں سے بھرپور اس شہر کو پیک ڈسٹرکٹ کا دروازہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس جگہ کے اطراف کا علاقہ ’مور لینڈز‘ Moorlands کے نام سے جانا جاتا ہے، اور اسی مناسبت سے لیک کو بعض اوقات کوئین آف مور لینڈز بھی کہتے ہیں۔

رہائش کے لیے ہوٹل اور کمرے کا انتخاب آن لائن ہی کیا گیا۔ یہ ایک چھوٹے سائز کا لیکن صاف ستھرا اور سہولیات سے آراستہ ہوٹل تھا جسے مقامی میاں بیوی مل جل کر چلا رہے ہیں۔ ان سے گپ شپ کے دوران معلوم ہوا وہ ابھی 5 سال قبل ہی لندن سے یہاں شفٹ ہوئے ہیں اور یہاں آکر انہوں نے فیصلہ کیا کہ ہوٹل بنایا جائے۔ ان کی زبانی یہاں کرایوں اور گھروں کی قیمتوں کا سن کر شدید حیرانی ہوئی، کیونکہ یہاں لندن سے تقریباً 3 گنا سستی رہائش دستیاب تھیں۔ شہر گو، چھوٹا لیکن سستا اور پُرسکون ہے۔

ہوٹل کے کمرے صاف اور ہوا دار تھے جبکہ بڑی چینز کے ہوٹلوں کی طرح یہاں بھی کمرے ہی میں چائے بنانے کا سامان، استری اسٹینڈ اور اسٹڈی ٹیبل موجود تھی، حالانکہ عموماً چھوٹے ہوٹل یہ سہولیات فراہم نہیں کرتے۔

کورونا وبا کے بعد پیدا شدہ صورتحال کے باعث صفائی کا خصوصی اہتمام تھا اور آمد کے بعد اس حوالے سے بریف بھی کیا گیا کہ انہوں نے کمروں اور بستروں کو خصوصی طور پر صاف کردیا ہے۔ مجموعی طور پر یہاں بکنگ کروانے کا فیصلہ اچھا ثابت ہوا اور رات گزاری کے لیے آرام دہ جگہ میسر آئی۔

آن لائن بکنگ کرواتے وقت اگرچہ کمرہ اور اسٹاف تو سامنے موجود نہیں ہوتا لیکن یہاں موجود کسٹمرز ریوو اور کسٹمرز کی جانب سے ہی اپ لوڈ کی گئی تصاویر کی مدد سے انتخاب آسان ہوجاتا ہے، اور عموماً وہی معیار اور سہولیات ملتی ہیں جس کا وعدہ کیا گیا ہو۔ اگرچہ بعض اوقات، بکنگ ویب سائٹس پر فیک فیڈ بیک بھی دیا گیا ہوتا ہے لیکن تھوڑے سے تجربے اور غور سے فیک اور اوریجنل کمنٹس کی پہچان ہو ہی جاتی ہے۔

اگلے دن کا ناشتہ کمپلیمنٹری تھا جس میں ایک روایتی برٹش بریک فاسٹ کی تمام خصوصیات شامل تھیں، یعنی جوس، چائے، مختلف اقسام کے سیریلز، انڈے، آلو کے قتلے، مشروم اور فروٹ کی کچھ اشیا شامل تھیں۔

پرانے تاریخی شہر کے آس پاس دیکھنے کو بہت کچھ ہے جہاں انسان بہت سارا وقت آسانی سے گزار سکتا ہے، لیکن شہر سے تھوڑا سا ہٹ کر، پہاڑوں کے بیچوں بیچ رڈیارڈ دریا بہتا ہے۔ یہاں سیاحوں کو متوجہ کرنے کے لیے بھاپ کی مدد سے چلنے والی چھوٹے سائز کی ٹرین موجود ہے جو تقریباً 45 منٹ دریا کے ساتھ ساتھ چلتی اور نت نئے نظارے کرواتی ہے


لکھاری انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔

احمد شاہین

لکھاری انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ میں ماسٹرز کرنے کے بعد لندن کے ایک نجی اردو چینل کے ساتھ پروڈیوسر کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔